سردار محمد نصراللہ
موت کا ایک دن متعین ہے، موت وقت سے پہلے نہیں آتی، آج 90 سے اپنے ملک میں مقید ہوں کرونا کی وجہ سے اور اب اپنے گھر نیویارک جلد از جلد جانا چاہتا ہوں جہاں میرے پیارے بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں۔ میرے احباب اور پیارے دوست الگ انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن کرونا ہے کہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا۔ بڑے بڑے سائنسدان، ہیلتھ آرگنائزیشن، ڈاکٹر صاحبان بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ کرونا جلد ختم ہونے والی وباءکا نام نہیں ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں کرونا سے اور کرونا کو ہمارے ساتھ معاملات طے کرنا ہونگے، میری دانست میں اگر ہم احتیاط کے دامن کو تھام کر چلیں تو کرونا سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ ورنہ دنیا کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی مخلوق خدا کو کرونا سے موت کی آغوش میں جاتی ہے یا نہیں لیکن ڈپریشن کی زد میں ضرور آجائیگی۔ یہ جانتے ہوئے کہ کیسے کیسے ہمارے پیارے کرونا کھا گئی ہے اور ابھی بھی بہت سے پیارے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں لیکن اس کے باوجود کورونا کے خوف کی چادر اُتارنے کو تیار ہیں۔ یہ سوچ کر کہ موت تو برحق ہے اور اس کا وقت بھی متعین ہے آپ خود دیکھ لیں کہ جہاں ہمارے پیارے ہم سے بچھڑے ہیں وہیں پر ہمارے بہت سے پیارے اپنے رب کے فضل سے اس مرض کو شکست دے کر اپنوں کےساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
رہا سوال معیشت کا تو پاکستان سے لے کر امریکہ تک اس کا بُرا حال ہے ،اموات کی گنتی کا شمار کرنا اور موازنا کرنا دونوں ہی بے سود ہیں کہ ہر ملک اپنی زمینی خصوصیات کا مالک ہے نیویارک میں رہنے والے ہوں یا لاہور میں سب میں لاک ڈاﺅن کی وجہ سے اپنے اپنے کاروبار سے اور اپنے پیاروں سے کٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں حکومت، اپوزیشن اور ٹی وی اینکروں کی کورونا اور لاک ڈاﺅن نے مت ماری ہوئی ہے جب بھی ٹی وی آن کریں تو وہ کرونا کا ایسا رونا رو رہے ہوتے ہیں کہ جیسے عمران خانہ ی اس وباءکا ذمہ دار ہے۔ اللہ کا شکر نہیں کرتے کہ پاکستان کا وہ حال نہیں ہے جو دوسرے ممالک کا ہے ہاں ایک بات ان کیا چھی ہے کہ وہا پنے رونے دھونے کےساتھ ساتھ احتیاط برتنے کی ترغیب دیتے ہیں لیکن اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم ان کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرتے ہیں تو کتنا کرتے ہیں۔ امریکہ سے ملنے والی دوستوں سے خبریں اچھی بھی ہیں اور ڈراﺅنی بھی لیکن زیادہ تر امید افزاءہیں کہ اب کرونا کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ بات پھر وہی ااجاتی ہے کہ اس وباءسے بچنے کے دو طریقے ہیں ایک کثرت سے اپنے اللہ سے دعا مانگیں کہ اے اللہ ہم پر رحم فرما اور اپنی قدرت سے اس وباءکو نیست و نابود کر دے اور دوسرا جتنا بھی ہو سوشل فاصلہ برقرار رکھیں اور دوسری تدابیت کو بروئے کار لائیں۔ ورنہ موت تو اپنا منہ کھولے کھڑی ہے بقول ہمارے ثمر جیلانی صاحب کے!
نہ عشق رُکا ہے نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہاہے ہوا چل رہی ہے
جیسے کرونا نے اہل وطن کو بہت سے ایشوز پر تقسیم کیا ہوا ہے ،وہاں پر ہماری سیاست بھی تقسیم ہے ،اللہ کے فضل سے ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے دانشور بھی سحری کے وقت جگانے والی ٹولیوں کی طرح بٹے ہوئے ہیں۔ میں جب بھی نیویارک میں اپنے بچوں اور پیاروں سے اُداس ہوتا ہوں تو کسی دانشور کا یا تو کالم پڑھنے لگتا ہوں یا پھر ٹاک شو آن کر لیتا ہوں اور جب دونوں سے تھک جاتا ہوں تو پھر وزیراعظم کے کرپشن پر معاون خصوصی شہزاد اکبر اور ن لیگ کی مریم اورنگزیب کی بیان بازی سن کر اپنا منورنجن کر لیتا ہوں۔ اب تو مجھے بھی اتنے ہی سال ہو گئے ہیں جتنے معاون خصوصی کو نوازشریف اور خاندان پر الزام تراشیاں کرتے ہوئے ہیں اپنے رب کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ جو شہزاد اکبر کہہ رہا ہے اور جو الزام لگا رہا ہے وہ بالکل سو فیصد رست ہیں اور جو بیچاری مریم اورنگزیب کہہ رہی ہے کہ کوئی الزام ثابت کرو وہ بھی غلط نہیں کہہ رہی۔ شہزاد اکبر کو کوئی ٹوکر مار کر گرا رہا ہے اور وہ اسی وجہ سے اپنا کیس ٹھوس بنیادوں پر پیش نہیں کر رپا رہے اور یہی وجہ ہے کہ نیب کچھ نہیں کر پا رہی اگر عمران کو ہمارے بوٹوں والے تھوڑی سی ڈھیل دے دیں تو یقین جانئیے نواز، شہباز اور ان کی کرپٹ اولادیں ایک سے دوسرا منٹ نہ لگائیں سب کچھ اُگلنے میں۔ خدا کی قسم مجھے تو افسوس ان ملازموں پر ہے جو ان کی طرح کرپٹ ضرور ہیں لیکن چھوٹے ہیں خوامخواہ ان کی خاطر گناہ کما رہے ہیں۔ وفاداری بڑی اچھی بات ہے لیکن وفادار ان لوٹوں کا ہونا چاہیے جو اپنے ملک اور قوم کا وفادار ہو نواز اور شہباز جیسے لٹیروں اور چوروں کا وفادار ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
جب تک عمران خان اور اس کی حکومت ان چوروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گی میری نظر میں وہ بھی ایک نا اہل حکومت ہوگی اور اس کے دائیں بائیں بیٹھنے والے بھی اسی فہرست میں شمار ہونگے۔ جیسے نواز کے پانچ رتن ہیں۔ عمران خان کا ہمدرد ضرور ہوں لیکن اگر وہ اپنی گورننس میں کمزوری دکھاتے ہیں تو میں بھی ان کا سب سے بڑا ناقد ہوں، جب تک ہم صاحب کو صاحب اور چور کو چور کہنے کی عادت نہیں ڈالیں گے ہم پاکستان کو ان سے نجات نہیں دلوا سکتے۔
میرے قارئین مجھ سے ناراض ہونگے کہ اگر میں ان کو یہ بتاﺅں کہ ان کے ہردلعزیز رہنما عمران خان کو میرے گھر سے دو ہزار قدم پر اور وزیراعظم کے قریب ترین گیٹ نمبر 4/5 کھل کر کام نہیں کرنے دے رہے جب تک وہ اس کو کُھل کر کام کرنے کا اذن نہیں دینگے معاملات دگر گوں رہیں گے آخر میں اپنے احباب اور پیاروں سے بھی گذارش کرونگا کہ کرونا سے بچنے کی مکمل احتیاط کریں کہ ہم سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭