آجکل امریکا میں فیس بک مشکل میں پڑ گیا ہے۔سابق صدر ٹرمپ سے قریبی تعلق فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کیلئے درد سر بنتا جارہا ہے۔فیس بک کے ادارے میں کام کرنے والے لوگ اب کھل کر2020ء کے6جنوری کو امریکی پارلیمنٹ پر ٹرمپ کے حمایتی افراد کے حملے میں فیس بک کے پلیٹ فارم کا بے دریغ استعمال کو منظر عام پر لاکر فیس بک کی جمہوریت دشمن پالیسیوں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔مارک زکربرگ کئی مرتبہ پارلیمانی تحقیقات کا سامنا کر چکے ہیںلیکن اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے ملازمین بھی انکے غیر جمہوری اور غیر اخلاقی پالیسیوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیںاور فیس بک اس سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہا ہے کہ وہ فیس بک کا نام تبدیل کرلیں!!لیکن جب تک پالیسی تبدیل نہیں ہوتی نام کچھ بھی رکھ لیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔مارک زکربرگ فیس بک کا مالک اس وقت دنیا کا پانچواں امیر ترین آدمی ہے جس کے اثاثوں کی قیمت ایک ارب چوبیس کروڑ ڈالر ہے۔کوئی کارخانہ نہیں کوئی جائیداد نہیں سوشل میڈیا میں ایک نئی چیز کو روشناس کیا جس کوFACEBOOKکا نام دیا اور اب وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہوگیا ہے۔آخر سوشل میڈیا میں اور بھی ڈھیر ساری چیزیں ہیں۔واٹس اپ، ٹیوٹر اور ٹک ٹاک لیکن جو اثرورسوخ عام آدمی پر فیس بک نے پیدا کیا ہے ،ہر آدمی پڑھا لکھا ،ان پڑھ، غریب ،امیر ،دیسی بدیسی ہر آدمی آسانی سے فیس بک بنا لیتا ہے۔اور دھڑا دھڑ دوستیاں بڑھاتا ہے ہر چیز کی طرح اس کے بھی جہاں فوائد ہیں ویسے ہی نقصانات بھی ہیں۔فیس بک بھی بوتل کے جن کی طرح ایک دفعا بوتل سے نکل آیا تو دوبارہ اسے بوتل میں ڈالا نہیں جاسکتا۔اس پلیٹ فارم میں بھی عام انسان ہیں اور اسی تناسب سے اچھے برے لوگ بھی ہیں تو اس حقیقت کو ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا۔کہ جس طرح انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر اچھی باتوں کی تشہیر بھی ممکن ہے اسی طرح سے بری باتوں کو پھیلانے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔جب سے اس دنیا کی تشکیل ہوئی اچھائی اور برائی کا وجود بھی موجود ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اتارے گئے لیکن اتنی رہنمائی کے باوجود بھی برائی کے وجود کو جڑ سے ختم کرنا ممکن نہیں رہا۔انسان کی فطرت میں دونوں چیزیں(اچھائی اور برائی) ازل سے موجود ہے۔اور ابد تک رہیگی۔صنعتی ترقی نے جہاں ڈھیر ساری سہولیات مہیا کیں ہیں وہاں بہت ساری برائیوں کو بھی جنم دیا ہے۔ترقی کی قیمت ہے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا کے بڑے بڑے ادارے جہاں بہت سا پیسہ کما رہے ہیں تو انکی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ منفی خیالات اپنے میڈیم کے ذریعے گلیم ائیز(اچھا بنا کر پیش کرنا)نہ کریں انسانی فطرت کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کریں انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔جس طرح آج بڑی طاقتیں ماحول کی آلودگی کے متعلق فکر مند ہیں۔معاشروں، ملکوں اور انسانوں کے درمیان ذرائع کی ناہمواری بھی دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔سوشل میڈیا کے بڑے بڑے ادارے منافع کمانے کیلئے بنائے گئے ہیں۔انکا مقصد سماج سدھار نہیں اچھائی کی ترویج انکے منشور کا اہم ترین جز نہیں ہے تو کمرشل فلموں کی طرح وہی کچھ پبلک کو دیتے ہیں۔جس کی عوام میں ڈیمانڈ یا مانگ ہوتی ہے۔چین اور روس نے اپنا اپنا میڈیا بنالیا ہے جو انکی اپنی اپنی اقدار کی ترجمانی کرتا ہے۔اور وہ ایک کنٹرولڈ میڈیا ہے۔جس میں حکومت پر تنقید نہیں کی جاسکتی ریاستی پالیسیوں کو برا بھلا نہیں کیا جاسکتا ہے۔”سب اچھا”والا میڈیا ہے تیسری دنیا کے ممالک آدھے تیتر آدھے بیڑ ہیں۔ہم لوگ نہ ہی مکمل طور پر جمہوری ہیں۔نہ عدالتیں آزاد ہیں ہماری جمہوریت کی حفاظت ہماری افواج کرتیں ہیں۔اور جب آواز اٹھائیں تو آپ ریاست کے دشمن ہیں اور غدار ہیں۔جیل کے حقدار ہیں اور پھر بھی باز نہ آئیں تو قتل کے حقدار ہیں نام کے آزاد ہیں اصل میں غلام ہیں۔حکمرانوں کے ایک چھوٹے سے طبقے کے جو ہمارے تمام ممالک پر قابض ہے تجھ شہنشاہ ہیں۔بادشاہ ہیں کچھ جرنل ہیں کچھ مولوی ہیں اندر سے یہ سب اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ملے ہوئے ہیں۔باہر سے عوام کے سامنے نورا کشتی جاری ہے۔یہی تماشا نیٹ فلکس پر ہنگر گیمس کے اور ہائوس آف کارڈز کے نام دکھائیا جاتا ہے۔فیس بک پر ہمیںLikesکے چکر میں ڈال کر ذہنی طور پر معروف رکھا جارہا۔ظاہر میں اللہ کا نام لیا جارہا ہے۔اندرون خانہ شیطان کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔DARK WEBپرLiveقتل ہوتے دکھایا جارہا ہے۔نوجوان نسل ایک دوسرے کا خون چوستے ہوئے ویڈیو لگائے جارہے ہیں۔اس وقت سب سے مہذب میڈیم فیس بک ہے اگر آپ ٹوئٹر پر پیغامات پڑھیں تو آپ پاگل ہوجائینگے۔اتنی ناشائستہ باتیں گالم گلوچ لڑکیوں کے ناموں سے فیک اکائونٹ بنا کر جو طوفان بدتمیزی چل رہا ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔
٭٭٭