جلوس میلاد اور بدعات!!!

0
102
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

غالباً1970کی بات ہے،سوشلزم کا نعرہ مقبول ہو رہا تھا۔اس میں مختلف مسالک کے کچھ علماء بھی متاثر ہوگئے۔انہوں نے سوشل ازم کا پرچار شروع کردیا۔میں خاصا کنفیوژ تھاچونکہ مقررین ایڑی چوٹی کا روز لگا کر یہ باور کرا رہے تھے۔سوشل ازم کا معنی ہے، اسلامی مساوات، اسلام تو مساوات کو ترجیح دیتا ہے۔دوسری طرف لوگ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان الدین عند الاسلام کی بات کی ہے ،صرف اسلام کوکسی لاحقے سابقے کی ضرورت نہیں۔ایک دن میں پریشان حال ایک بزرگ کے پاس پہنچااور عرض کی حضور آخر اسلامی مساوات کہنے میں حرج ہی کیا ہے۔فرمانے لگے اگر حکم خداوندی کے بموجب صرف اسلام کہنے میں حرج کیا ہے ،کہنے لگے اچھا میں آپ کو سمجھاتا ہوں بیٹے کو آواز دی۔کہنے لگے بیٹا قمر صاحب آئے ہیں ایک گلاس دودھ لے آئو اور سنو آتے دفعہ ایک قطرہ پیشاب کا ڈال دینا۔میں اچھلا اور کہا حضور یہ تو پلید ہوجائے گا۔ فرمانے لگے بالکل دودھ ہی ہوگا پیشاب کا قطرہ نظر نہیں آئے گا۔میں نے عرض کی حضور نظر آئے یا نہ آئے دودھ تو پلید ہوگیا۔فرمایا قمر صاحب لوگ کتنے سیانے ہیں۔اپنے دودھ میں ایک قطرہ پیشاب برداشت نہیں اور اسلام میں سوشل ازم کو ڈال رہے ہیں۔میری آنکھیں کھل گئیں وہ جو تھوڑا بہت اسلامی مساوات کے بارے حسن ظن تھاجاتا رہا ،سو میرے دوستو، بچو، عزیزو عید میلادالنبیۖ کا جلوس باوضو جھنڈے اُٹھا کر چلنا۔ایک خوبصورت کام بلکہ ایک خوبصورت دعوت ہے۔مخلوق خدا کو یاد دہانی ہوجاتی ہے۔ور دن بدن اس میں اضافہ ہورہا تھا۔دین کے دشمنوں کو یہ بات نہیں بھائی روک تو وہ سکتے نہیں تھے انہوں نے سوچا کیوں نہ ہو جلوس کو متنازع بنا دیا جائے۔چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے کعبہ شریف اور روضہ رسول کے ماڈل بنائے۔ہلکی پھلکی سرزنش ہوئی مگر وہ دو تین سال خاموش رہے۔اس مرتبہ انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ایک آدمی کو شیطان بنا کر اس کے گلے میں زنجیر ڈال کر پھرایا گیا اور ایک مقام پر ایک مقامی لڑکی کو حور کا روپ دیا گیا اور اسے پھرایا گیا لوگوں کو کہا گیا جنت کی حور کی زیارت کریں۔اگر یہ بھی برداشت کر گئے تو اگلی مرتبہ فرشتے بنا کر بٹھائیں گے پھر آگے چل کر سرکار دو عالم بنائیں گے۔پھر ماڈل کے سامنے کھڑے ہو کردعائیں مانگیں گے۔یہ دشمنان دین ایک تیر سے کئی شکار کریں گے۔مقدس انسانوں کی توہین مقدس مقامات کی توہین دین کا رخ پھیرنا۔غیرضیکہ بدعات کے اتنے دروازے کھل جائیں گے کہ ان کے آگے بند باندھنا مشکل ہوجائیگا۔اس لئے ہمیں یعنی علماء کرام پیران عظام اور مصلحین اُمت کو چاہئے کہ آگے بڑھ کر ان بدعات کو ختم کریںتاکہ دین اور دین کی شکل محفوظ رہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here