کرونا اور گھریلو زندگی!!!

0
521
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک

جب سے کرونا کی وباءشروع ہوئی ہے تمام لوگوں کو گھروں میں ہی پابند کر دیا گیا ہے، کرونا سے پہلے خاوند باہر کے کام کی دیکھ بھال کرتا تھا اوربیوی گھر کے کام کاج کو دیکھتی تھی، اب حالات نے میاں بیوی کو یکجا کر دیا جس سے گھریلو پرابلم بھی شروع ہو گئے ہیں، میرے قرب و جوار میں دو گھرانے سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ خاوند کو کام کاج کی عادت نہیں تھی جب بیوی کام کرتی ہے تو ٹوکا ٹاکی شروع ہو جاتی ہے ایک دوسرے کو چُپ کروانے کے چکر میں کام وہیں رہ جاتا ہے اور غصہ میں پرانی کہاوتیں کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے وغیرہ وغیرہ کوشش کر رہا ہوں اللہ پاک آسانی پیدا فرما دے ۔گھر ایک بنیادی اکائی ہے جس سے معاشرہ بنتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو اللہ رب العزت نے اس دنیا میں ایک فرد کو نہیں بھیجا بلکہ جنت سے پورا کنبہ بھیجا ہے یعنی حضرت آدم علیہ اسلام اور سیدہ حوا اس لئے بنیادی اکائی فرد نہیں بلکہ پورا کنبہ ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے ایک بھرپور خاندانی زندگی گزاری ہے جس طرح سرکار دو عالمﷺ کی باقی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے اسی طرح خاندانی معاملات بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں سرکار دو عالمﷺ نے اندر اور باہر کی زندگی میں کس طرح توازن قائم کیا ،اس کی ہلکی سی جھلک حضرت عثمان بن مطعون اور حضرت عبداللہ بن عمر کا ازواج مطہرات کے دروازوں پر جا کر اپنا تعارف اور مدعا بیان کے بعد عرض کرنا کہ حضورﷺ گھر کے اندر کیا معمولات ہیں، تقریباً تمام ازواج مطہرات نے ایک جیسا ہی جواب دیا کہ سرکار دو عالمﷺ کے معمولات ویسے ہی ہیں جیسے آپ لوگوں کے ہیں کھانے کے وقت کھانا کھا لیتے ہیں، گھر کا کوئی کام ہو تو ہمارا ہاتھ بٹا دیتے ہیں کوئی سودا سلف لانا ہو تو لا دیتے ہیں گھر کی کوئی چیز مرمت طلب ہو تو مرمت کر دیتے ہیں چار پائی سیدھی کرنی ہو تو رسیاں کس دیتے ہیں اور جوتا اگر مرمت طلب ہو تو وہ بھی گانٹھ لیتے ہیں، ہمارے ساتھ بیٹھ کے بات بھی کر لیتے ہیں دونوں صحابی حیران و پریشان کہنے لگے ہم نے تو سوچا تھا گھر جاتے ہی مصلّی بچھا لیتے ہونگے۔ اور صرف عبادت ہی کرتے ہونگے سرکار دو عالمﷺ کو پتہ چلا تو ناراض ہوئے فرمایا میں خدا کا خوف بھی زیادہ رکھتا ہوں اور تقویٰ بھی سو اے میرے بھائیو، عزیزو اور بچو اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرصت کے لمحات عطاءکئے ہیں تو آئیے اللہ کے پیغمبر کی سنت ادا کرتے ہوئے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹائیں۔ بیوی کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس کے کام میں مداخلت کی بجائے اس کے دست و بازو بن جائیں اور یوں پاور کی لڑائی بھی ختم ہو جائیگی، گھر میں پکوان بھی شاندار پکیں گے۔ بچے بھی خوش ہونگے کسی کی مداخلت کی ضرورت نہیں رہے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here