پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی قیادت میں ایک امریکی وفد نے دوحہ، قطر میں افغان طالبان کے ایک اہم اور بڑے گروہ حقانی نیٹ ورک کے وفد کےساتھ پہلے سے طہ شدہ معاہدے پر دستخط کئے لیکن درحقیقت یہ ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک معاہدے سے پہلے ہونے والے معاہدے کی وضاحتوں پر آمادگی کا سمجھوتہ ہے، 2020ءمیں ہونےوالے امریکی صدارتی انتخابات کے ایک شاخسانہ ہے کیونکہ 2016ءکی صدارتی مہم کے دوران اس وقت کے صدارتی امیدوار اور موجودہ صدر ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں وہ دنیا بھر میں ہونےوالی جنگوں میں سے امریکی فوج کو نکال باہر کرینگے، سچ تو یہ ہے کہ واقعتاً امریکی عوام بھی تنگ ہو گئی اور مزید اپنے عزیزوں کو غیر ملکی تنازعات کے نتیجے میں ہونےوالی جنگوں کی خوراک بنانے کیلئے تیار نہیں۔ امریکہ کے معاشی حالات بھی بدتری کی جانب رواں دواں ہیں خسارے کا بجٹ اور اس میں خسارے کی رقم ہر سال بڑھتی ہی جا رہی ہے صدر ٹرمپ کاروباری آدمی ہیں اور انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ اربوں ڈالر خرچ کر کے سینکڑوں امریکی فوجی مروا کر امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں اس لئے وہ افغانستان سے نکلنے کیلئے افغانستان کے اندرونی اور بیرونی تنازعات کو افغان عوام اور آس پاس کے پڑوسی ممالک کو سونپنے کو ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ امریکی، طالبان معاہدے کے پس پردہ پاکستان نے مصالحت کار کا خاموش کردار ادا کیا ہے پاکستان کی طرف سے مختلف ایجنسیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے جس میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو جیسے خفیہ اداروں کا مرکزی کردار رہا ہے۔ ماضی میں امریکہ کی طرف سے بار بار یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی یہی ایجنسیاں چلا رہی ہیں یہ تاثر مکمل طور پر صحیح نہیں بھی ہو کچھ نہ کچھ صداقت تو رکھتا تھا۔ آج تو امریکہ پاکستان اور اس کی حکومت سے خوش ہے لیکن لگ یہ رہا ہے کہ اس ہنی مون کی مدت کوئی زیادہ لمبی نہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ حقانی نیٹ ورک ایک بڑا اور مضبوط طالبان گروہ ہے لیکن کئی چھوٹے شرارتی طالبان گروپ ایسے بھی ہیں جنہیں حقانی کی قیادت تسلیم نہیں، اگر ایسے گروہوں نے امریکی فوج یا تنصیبات پر حملہ کر دیا تو معاہدے کی جڑیں ہل جائینگی اور یہ ساری ذمہ داری پاکستان کے کندھوں پر پڑ جائیگی۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے پچھلے دنوں سی این این کے ایک پروگرام کے میزبان فرید ذکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر دہشتگردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا۔ صدر ٹرمپ بھی ابھی سے دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں کہ اگر کوئی شرارت ہوئی تو وہ طالبان کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ وہ کبھی بھولیں گے نہیں۔ معاہدے کے دونوں فریقین گھبرائے ہوئے ہیں ایسے ماحول میں کوئی تیسرا ملک خفیہ طور پر ممکنہ جھگڑے کو شروع یا بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کو امریکہ سے مالی اعانت کی ضرورت ہے آئی ایم ایف کی مدد کی ضرورت ہے اس دباﺅ میں آکر ایک بڑی ذمہ داری قبول تو کی ہے لیکن اس معاہدے کی شق کے مطابق پانچ ہزار کے لگ بھگ طالبان قیدیوں کی رہائی میں طے وہنی ہے جن میں سے ایک بڑی تعداد بشمول طالبان کے ترجمان جنہوں نے امریکہ، طالبان، معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ انہیں مشرف حکومت نے پاکستان سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔ پانچ ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کی صورت میں پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کا امکان بڑھ جائےگا۔ بہرحال اگر تو معاہدہ پر کامیابی سے عملدرآمد ہو جاتا ہے تو پاکستان کیلئے ایک اچھی صورتحال پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
چند روز قبل سپریم کورت میں حیات ریجنسی لگژری اپارٹمنٹس کےخلاف دیئے جانےوالے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی سی ڈی اے کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس تعمیراتی کمپنی سے دس سال میں اربوں روپیہ کا جرمانہ وصول کر کے حیات ریجنسی اپارٹمنٹس جس کی زمیں جو بنیادی طور پر ایک فائیو اسٹار ہوٹل کیلئے خریدی گئی تھی اس زمین کو غیر قانونی طور پر اپارٹمنٹس کی تعمیرات کیلئے استعمال کیا گیا تھا اسے ہوٹل سے ہوٹل سے اپارٹمنٹس کیلئے استعمال کی اجازت دے دی جائے حسن اتفاق یہ ہے کہ عمران خان نے بھی اسی لگژری اپارٹمنٹس میں ایک کروڑوں روپے کی مالیات کا اپارٹمنٹ بک کروایا ہوا تھا جو اب ان کی مستقل رہائش بننے کا شرف حاصل کر سکتا ہے۔ معروف صحافی طلعت حسین نے یہ بھی خبر دی ہے کہ بنی گالا میں غیر قانونی تعمیرات کےخلاف جو کارروائیاں چل رہی تھیں وہ ختم کروا کر تمام تعمیرات بشمول عمران خان کے فارم ہاﺅس کو قانونی حیثیت دےدی گئی ہے جبکہ کئی غریب خاندانوں کے گھر و دکان غیر قانونی تعمیرات کے زمرے میں گرا دیئے گئے ہیں جس کیلئے متاثرین نے جھولی پھیلا کر بددعائیں دی ہیں قانون کے نفاذ کا یہ دہرا معیار وہ بھی اس سیاسی جماعت کیلئے جو انصاف کرنے کے نعرے کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے نہایت شرمناک ہے۔
٭٭٭