مفتی عبدالرحمن قمر،نیویارک
اس وقت دو طاقتیں آپس میں دوڑ لگا رہی ہیں، عجب دوڑ ہے جہاں ایک کمزور ہوتا ہے دوسرا پہنچ جاتا ہے، دونوں کا مقصد دوڑ جیتنا نہیں ہے بلکہ گریٹر اسرائیل اور گریٹر ہندوتوا ہے، مودی کی خواہش ہے کہ ملیچھ (نعوذباللہ) یعنی ناپاک مسلمانوں سے ہندوستان کی زمین کو پاک کرنا ہے۔ مودی نے آہستہ آہستہ مسلمانوں کا ٹمپریچر چیک کیا ہے، بابری مسجد گرائی، سوائے بنگلہ دیش حکومتی سطح پر نہیں عوامی سطح پر لیکن پاکستان نے دونوں سطح پر مودی ایجنڈے کو اُجاگر کیا۔ آر ایس ایس کا نقطہ نظر دنیا تک پہنچایا۔ مگر دنیا میں طاقت ور اور مالدار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئی، نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کی حیثیت ختم کر دی جو تاحال ظلم و ستم کی شکل میں جا ری ہے۔ اس مرتبہ کُھل کر ترکی نے ساتھ دیا کسی حد تک ملائیشیا نے مگر مسلم اُمہ خاموش رہی اس کے بعد مودی ایجنڈا اصل کام کی طرف واپس آیا سب سے پہلے مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کیا جائے اور انتخاب دہلی کا کیا جو عرصہ دراز تک مسلمانوں کا مرکز رہا کہ دہلی کو ملیچھ (نعوذ باللہ) ناپاک مسلمانوں سے صاف کیا جائے، ظلم کی کوئی قسم باقی نہیں چھوڑی جو روانہ رکھی گئی ہو، حسب روایت مسلم اُمہ خاموش ہے، مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو زندہ قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے باقی کیا کچھ نہ کرتے ہونگے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے کچھ کیا ہے اور نہ ہی کر سکتے ہیں مگر ایک ذات ہے جس کا اپنا نظام ہے جب ظالم کا ظلم عروج پر پہنچتا ہے تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے چونکہ مظلوم کی آہ اور مالک کے درمیان کوئی پردہ نہیں کہتے ہیں ایک آدمی نے شاندار محل بنایا اور اندر باہر سے سجایا، معائنہ کیلئے اوپر گیا تو محل کے کنارے ایک جھونپڑی تھی جو ایک اللہ والی بڑھیا کی ملکیت تھی، صاحب بہادر نے حکم جاری کیا۔ کہ جھونپری میرے محل کے حسن کو خراب کر رہی ہے ملیا میٹ کر دو، بڑھیا موجود نہ تھی واپس آئی تو جھونپڑی کا نام و نشان نہ تھا، مالک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئی، عرض کی مالک میں موجود نہ تھی مگر تو تو موجود تھا یہ کس طرح ممکن ہو گیا، بڑھیا کی پکار نے عرش ہلا دیا، اللہ نے فرشتوں کو بھیج کر محل ملیا میٹ کرا دیا، سو میرے عزیزو، بھائیو ہم کسی قابل نہیں ہیں مصلحتوں کے مارے لوگ مگر اب مظلوموں کی آہیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں اور ظالم اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اب اس کی رحمت کا انتظار کہ کس طرح مظلوموں کی اشک شوئی ہوگی مگر وہ دیکھ رہا ہے۔
٭٭٭