سلیم صدیقی، نیویارک
سے ودیعت کی گئی ہیں صلب کر لی گئی ہیں۔ 1985ءسے لگاتار میری تحریریں اخباری صفحات کی زینت بنتی رہی ہیں، میرا شوق میرا عزم دن رات خبروں کی تلاش میں رہا ہے کہ میں اپنے قارئین تک خبری معلومات پہنچاتا رہوں مگر کچھ عرصہ پہلے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا، اس میں انسانی فعل کبھی نہیں رہا ،مجیب لودھی اور دیگر دوستوں کا اصرار رہا مگر میرا ایمان میرا وجدان کہتا تھا کہ میرا لائسنس کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع اتھارٹی نے معطل کر رکھا ہے۔ اس دوران میری عاجزانہ دعائیں اس کے دربار تک مسائل، درخواستوں اور استدعاﺅں کی شکل میں رسائی کی کوشش کرتی رہیں بالآخر میرے مالک نے میری عاجزانہ درخواست کو قبول فرما لیا اور برسوں بعد میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ نائن الیون کے بعد اور خصوصاً گزشتہ چند برسوں میں میڈیا کی دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ۔پڑھنے کا رحجان بہت کم ہو گیا ہے ،روایتی میڈیا وقت کھو رہا ہے، اس کی جگہ سوشل میڈیا نے اپنے قدم جما لئے ہیں ،چند سیکنڈز میں بھی بجلی کی سی تیزی سے دنیا کے کونے کونے تک خبر پھیل جاتی ہے، اب ہر شخص صحافی بھی ہے اور ایڈیٹر بھی، ہر شخص کی پروجیکشن خود اس کے ہاتھ میں ہے حتیٰ کہ سربراہان مملکت بھی خود ہی سوشل میڈیا پر اپنی خبر بریک کرتے ہیں ،وہ خود ہی براہ راست اپنے فالوورز اور عوام تک پہنچ جاتے ہیں ۔روایتی میڈیا بھی بعض پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہے ،واٹس ایپ نے آزادانہ صحافت اور تحقیقی صحافت کا خاتمہ کر دیا ہے، رپورٹرز اسی واٹس ایپ کے محتاج ہیں، عوام کو ایک ہی خبر ایک ہی ٹکر ایک ہی موقف ہر چینل پر ملتا ہے۔
٭٭٭