ماجد جرال
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے اپنے دور صدارت میں شاید ایک بہت اہم مسئلہ درپیش رہے، یہ مسئلہ افغانستان میں قیام سے متعلق ہے جس کے ساتھ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام بھی وابستہ ہے۔ افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکی کوششیں اتنی ہی ضروری ہیں جتنی کے امریکہ نے یہاں پر روس کو شکست دینے کے لئے کی تھیں۔ اس زمانے میں اگر چے امریکہ نے شکست دے کر اپنے راستے سے ایک بڑی قوت کو ہٹا دیا لیکن وہی جنگ جو آنے والے وقتوں میں امریکہ اور دیگر ممالک کے لئے بڑی سر دردی کا باعث بنی، میں یہاں لفظ سردردی اس لئے استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو افغانستان میں قیام امن جنوبی ایشیا کے چند ممالک میں امریکہ کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگرچہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغان مفاہمتی عمل میں پیشرفت کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس سلسلے میں کئی ادوار ہوئے اور طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لاکر ان سے جنگ بندی کا معاہدہ کرنا یقینا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بڑا اہم کارنامہ تھا۔ جنگ بندی معاہدے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں قیام امن کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہوگئی مگر مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد ہر آنے والے دن نے مذاکرات کامیابی کے دعوے پر ایک ضرب لگائی۔ ان مذاکرات کی کامیابی کے اعلان کے بعد افغانستان میں متعدد بار طالبان کی جانب سے افغان حکومتی تنصیبات اور افغان فوجیوں پر حملے جاری رکھے گئے جس کے باعث یہ معاہدہ اپنے جوبن کو برقرار نہ رکھ سکا۔ افغان مفاہمتی عمل کوئی امریکہ کی جانب سے شروع کیے جانے کی پہلی کاوش نہیں تھی، اس سے قبل ہارٹ آف ایشیا کے پلیٹ فارم سے ترکی نے بھی افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے متعدد ممالک کے ساتھ مل کر کوشش شروع کی تھیں جو کہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی ۔ امریکہ کی چھتری تلے اور پاکستان کے ضامن بننے کے بعد افغان مفاہمتی عمل کا دور شروع ہوا اس میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ شاید ہارٹ آف ایشیا کی نسبت یہ دور کامیاب ہو۔ اگر منطقی طور پر جائزہ لیا جائے تو ہارٹ آف ایشیا کی نسبت امریکہ کی جانب سے شروع کیا جانے والا افغان مفاہمتی عمل نسبتا زیادہ کامیاب رہا۔ بنیادی مسئلہ اب افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان ہے، وزیر دفاع کی جانب سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد اس معاہدے کی ایک اہم شق پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے لیکن اس کے بعد بھی افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین باہمی تعاون کی فضا کو فروغ دینا ایک بڑا چیلنج رہے گا۔ کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان نے پاکستان کو اس لیے ضامن بنایا تھا کہ اگر امریکہ کی جانب سے مذاکرات کے نام پر طالبان سے کسی قسم کا دھوکہ ہوا تو اس کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑے گا کیونکہ اس سارے سلسلے میں جہاں پاکستان ایک جانب ضامن تھا وہی ان مذاکرات کو شروع کروانے کے لیے فضا سازگار کرنے میں پاکستان میں اہم کردار ادا کیا تھا اور افغان طالبان کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اب افغانستان میں قیام امن کے لئے سنجیدہ ہے۔ موجودہ صدر جو بائیڈن کے لیے امریکی اعتماد کی فضا کو برقرار رکھنا اور افغان طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا بڑے چیلنجز میں ایک ہوگا۔ پاکستان میں دفتر خارجہ کے رپورٹنگ میں نے اسی دور میں کی جب ہارٹ آف ایشیا اور افغان مفاہمتی عمل کے دور چل رہے تھے، اس دوران دو بار طالبان نمائندگان نے پاکستان کے دورے کئے اور مذاکرات کا عمل چلا، اس وقت کے ترجمان دفتر خارجہ اور پاکستان کے موجودہ جرمنی میں سفیر ڈاکٹر فیصل سے جب بھی اس موضوع پر بات ہوئی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ اگر افغان ان مذاکرات کا عمل کامیاب نہ ہوا تو اس سے خطے کو کافی نقصان ہوگا اور اب ان مذاکرات کی کامیابی کا دارومدار امریکہ کے رویہ پر ہے یعنی اگر موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے جانب سے اپنا رویہ تبدیل کیا گیا تو اس کے عمل پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
٭٭٭