Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
اگرچہ پاکستانی سینیٹ چوں چوں کا مربہ نظرآتی ہے کہ جس کو برائے راست انتخابات کی بجائے صوبوںاور قومی اسمبلی کے ممبران کے انتخاب کا وسیلہ بنا دیا ہے کہ جس میں اکثریت جنرل خواتین، ٹیکنوکریٹ اور اقلیتی نشستوں پر سینٹرز منتخب ہوتے ہیں جو ملک کا ایوان بالا کہلاتا ہے جس میں ہر صوبہ مساوی سینیٹرز کا حاصل کہلاتا ہے جو پاکستان کی فیڈریشن کی ضمانت دیتی ہے مگر باوجود یہ کہ آئین پاکستان کے مطابق سینیٹ میں چاروں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہوتی ہے جس کے چوبیس چوبیس ممبران ہر صوبے اور چار ممبران دالخلافہ اسلام آباد سے منتخب ہوتے ہیں جن کی تعداد اب104کی بجائے100رکھی گئی ہے۔جس میں ہر صوبے کی پندرہ جنرل چار خواتین چار ٹیکنوکرپٹ یا علماءاور ایک غیر مسلم نشست ہوتی ہے۔جس کے ممبران کی مدت ممبر شپ چھ سال ہوتی ہے جس کی ہر تین سال بعد آدھی ریٹائر ہوجاتی ہے جس پر ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں جس میں صوبوں پارلیمنٹرین اور دالخلافہ اسلام آباد کی نشستوںپر قومی اسمبلی کے ممبران ووٹ دینے میں جس کا مطلب چار صوبوں میں749صوبائی اسمبلی کے ممبران اور اسلام آباد کے امیدواروں کے لیے342قومی اسمبلی کے ممبر ووٹ دیتے ہیں۔
تاہم امسال پاکستانی سینٹ کے48ممبران کا انتخاب ہو رہا ہے جو اس سال ریٹائر ہوتے ہیںجو پورے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے کہ سینٹ کے ممبران کے لیے اوپن یاخفیہ بیلٹ اختیار کی جائے۔شہر میں عدالت عظمیٰ بھی شریک ہے جس نے یہ جانتے ہوئے اپنی سماعت کا حصہ بنا رکھا ہے جو اس کے سامنے صدارتی ریفرنس کے طور پر دائر کیا گیاکہ عدالت حکومت کو مشورہ دے کہ سینٹ کے انتخاب میں سینکڑوں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران ہاتھ اُٹھا کر ووٹ دیں یا چھپا کر ووٹ دیں۔یہ جانتے ہوئے کہ آئین پاکستان میں بنا ابہام درج ہے کہ سینٹ میں خفیہ بیلٹ ووٹنگ ہوگی مگر عدالت عظمیٰ نہ جانے کس وجہ سے یا اشارے پر پارلیمنٹرین کو کرپشن کے نام پر ان کے ضمیر کے خلاف ووٹ نہ دے پائے اگر کوئی پارلیمنٹرین پارٹی کے امیدوار کے خلاف ووٹ دے گا تو انہیں اوپن ووٹنگ کی وجہ سے دوسرے دن نکال دیا جائے گاجس سے وہ اپنی نشست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گاجو ایک غیر جمہوری ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل ہوگاجس پر پاکستان میں یہ عدالتی بحث جاری ہے جن کا سلسلہ تب تک جاری رہے گا۔جب تک سینٹ کے انتخابات نہ ہوجائیں تاکہ موجودہ حکمران پارٹی کے باغی اور ناراض اراکین اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہ دے پائیں جس سے لگتا ہے کہ عدلیہ موجودہ حکمرانوں کی مدد کے لیے ایک فضول بحث میں مبتلا ہے تاکہ پارلیمنٹرین کو بھی خوف وہراساں رکھا جائے جو موجودہ حکومت کی نااہلیت اور نالائقی کے خلاف ووٹ نہ دے پائیں چونکہ عمران خان کو موجودہ ناکام ترین اور نااہل ترین حکومت میں قائم رکھنا اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے لیے ضروری ہے۔جس نے عدالتی سماعت جاری رکھی ہوئی ہے تاکہ پارلیمنٹرین کو کرپشن کے نام پر ڈرایا دھمکایا جائے جو اپنے ضمیر کے مطابق غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہ قرار نہ دے پائیں جو جمہوریت کی نفی ہوتی ہے کہ بعض اوقات کسی تجوری ملک کے پارلیمنٹرین اپنی ہی حکومت یا پارٹی کے خلاف ووٹ دیتے ہیں جس طرح امریکہ میں ٹرمپ کے مواخذے میں کانگریس مینوں اور سینٹروں نے اپنی ہی پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار کی غیر قانونی اور غیر آئینی حرکتوں کے خلاف ووٹ دیا ہے مگر پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ اگر کوئی پارلیمنٹرین پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا۔اسے پارٹی باہر نکال دے گی جو اپنی ممبر شپ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔لہٰذا آج موجودہ حکومت کے باغی پارلیمنٹرین اوپن بیلٹ ووٹنگ سے کس طرح اپنی حکومت کی ناکارہ کارکردگی پر ووٹ دیں گے جن کو ملکی آئین بھی نہیں بچا سکتا ہے لہٰذا اوپن بیلٹ ووٹنگ ایک غیر جمہوری اور غیراخلاقی طریقہ کار ہے لیکن اختیار کرنا پارلیمنٹرین کو عہدغلامی میں دھکیلنے کے مترادف ہوگاجس سے عدالتوں کو اجتناب کرنا چاہئے۔بحرحال امسال اسلام آباد کی ایک نشست پر سابقہ اسپیکر ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ورلڈ بینک بین الاقوامی کارندے حفیظ شیخ جو جنرل مشرف، زرداری اور اب عمران خان کے وزیر داخلہ چلے آرہے ہیں تاکہ پاکستان پرمالی پابندیاں اور ٹیکسوں کا اجراءورلڈ بینک کے مطابق ہوپائے کے درمیان سینیٹ کی ممبر شپ کا مقابلہ ہے ایک طرف موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور بین الاقوامی ساہوکا رورلڈ بینک حفیظ شیخ کی طرح کی مدد کر رہا ہے۔دوسری طرف ملک کی مقتدر طاقتوں کی مخالف اپوزیشن یوسف رضا گیلانی کی مدد کر رہی ہے جس کا فیصلہ تین مارچ کو ہوگا کہ کون جیتے گا محب وطن یا وطن دشمن۔
٭٭٭