ڈونلڈ ٹرمپ کا مستقبل!!!

0
151
ماجد جرال
ماجد جرال

ماجد جرال

امریکی انتخابات میں ہار جیت کے بعد آنے اور جانے والے صدور کا ایک دوسرے کو خوش گوار انداز میں خوش آمدید اور اللہ حافظ کہنے کی روایت ایک عمدہ جمہوری روایت تھی۔ حالیہ انتخابات کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آنے والا ردعمل غیر متوقع تو نہیں تھا مگر عوامی اور صحافتی اندازوں سے کچھ زیادہ ہی ہو گیا۔ امریکہ میں پہلے بھی صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی جانب سے اپنی ہار پر مایوسی کا اظہار کرنے کی مثالیں موجود ہیں مگر یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی صدر کی جانب سے ہارنے کے بعد انتہائی جارحانہ انداز اپنایا گیا۔ماضی میں ایسے واقعات کے دوران عموماً دیکھا گیا کہ ہارنے والے امیدوار نے قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے انتخابی نتائج پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا مگر اب کی بار جو کچھ ہوا اس کو امریکی تاریخ کا تاریک ترین باب گردانا جارہا ہے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی جانب سے کی جانے والی تقریر میں جس مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جذباتی پن کی مذمت کی گئی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جو بائیڈن اپنے حلف برداری کے بعد یقینا مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی ضرور عمل میں لائیں گے اور ممکن ہے کہ مختلف امریکی حلقوں کی جانب سے اس کا پس پردہ مطالبہ بھی رہے۔اس کا موازنہ ہمیں قطع غیر ترقی یافتہ یا تیسرے درجے کے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں سے نہیں کرنا چاہئے جہاں قانون طاقتور کی لونڈی بن جاتا ہے۔کیپیٹل ہل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی کے بعد نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتہائی تحمل سے شروع ہونے والی میڈیا سے بات چیت میں ان کا لب و لہجہ اس وقت سخت ہونا شروع ہوگیا جب انہوں نے کہا کہ امریکہ میں آج جو کچھ ہوا یہ حقیقی امریکہ کی منظر کشی نہیں کرتا اور نہ ہی یہ عمل امریکی عوام کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، یہ صرف چند انتہا پسند لوگ ہیں، نومنتخب صدر جو بائیڈن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں اب اس جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اس انتہاپسندی والے عمل کو روکنا ہوگا۔نو منتخب صدر جو بائیڈن کا اپنی تقریر میں یہ کہنا کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو کال کی کہ وہ نیشنل ٹی وی پر جائیں اور ہجوم کو کیپیٹل ہل کا محاصرہ ختم کرنے کا کہیں، دراصل صدر ٹرمپ کے خلاف مستقبل میں ممکنہ کاروائی میں ایک انتہائی اہم نقطہ بن سکتا ہے۔ موجودہ حقائق کو دیکھا جائے تو اس چیز کے کافی شواہد موجود ہیں کہ معاملہ خراب تب ہوا جب صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے حامیوں کو کہا گیا کہ وہ کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کریں اور وہ ان(ہجوم) کا ساتھ دیں گے۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ہیں امریکہ میں جمہوری روایت کے منافی قرار دیا جا رہا ہے جس کے بعد ناصرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک سے مذمتی بیانات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ عمومی تاثر اب بھی موجود ہے کہ صدر ٹرمپ کا جذباتی ہوکر یہ بیان دینا مستقبل میں ان کی سیاسی زندگی کے لیے بڑا خطرناک ثابت ہوگا۔اگر دیکھا جائے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد ابتدائی طور پر اس کے اثرات اسی وقت سامنے آنا شروع ہوگئے جب فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب سے حلقہ اکاو¿نٹ معطل کئے گئے جبکہ بعد ازاں مستقل طور پر بند کر دیئے۔
سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کی جانب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ کارروائی اس بات سے منسوب تھیں کہ انہوں نے عوام کو غیر قانونی کام کے لیے اُکسایا۔ اس سارے عمل کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اب یہ باتیں یہی رُک جائیں گی یا اس کو آنے والی حکومت مزید آگے بڑھے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here