بستی بسنا کھیل نہیں ہے!!!

0
147
ہارون الرشید
ہارون الرشید

مہمان کالم: ہارون الرشید

افغانستان میں طالبان کی فتح کا جشن منانے والوں کو تحمل سے کام لینا چاہئے۔ آگ کا دریا وہ عبور کر چکے لیکن کئی ندیاں نالے، پہاڑ اور ریگزار ابھی عبورکرنا ہیں۔ بستی بسنا کھیل نہیں ہے۔ بستے بستے بستی ہے۔ زندگی شاعری نہیں ، خواب نہیں ہے۔ سپنوں کو مجسم کرنے کے لیے جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدرت کے ان ابدی قوانین سے آہنگ پیدا کرنا ہوتا ہے، جو کبھی بدلتے نہیں۔ اس میں پیغمبرانِ عظام کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ آدمی کو سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ سرائیکی کے شاعر نے کہا تھا: کینویں میں بھل سکدا تیرے گھر دا رستہ ڈوتے سارے جنگل ہن، تریے تے سارے دریا یہ خواب نگر ہے۔ اس میں سب معرکے تصور میں سر ہوتے ہیں۔ عالمِ خیال میں آدمی منزل کو جا لیتا ہے۔ شاعر نے یہ فرمایا تھا : اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے منزل کی طرف دوگام چلوں اور سامنے منزل آجائے مگر غالب نے یہ کہا تھا عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک رحمتہ اللعالمین کے راستے میں پہلے تو طائف آن پڑا۔ چودہ صدیوں کے بعد آپ کے ایک گمنام امتی نے لکھا : گل رنگ زمیں خونِ پیمبر سے ہوئی تھی طائف کا بڑا نام ہے تاریخِ وفا میں بازاری لونڈوں نے پتھر برسائے اور مقدس خون ایڑیوں تک پہنچا۔ فرشتہ حاضر ہوا۔ اجازت طلب کی کہ پتھر دلوں کی اس بستی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیا جائے۔ صاحبِ عرشِ بریں کیونکر گوارا کرتے، جنہیں اللہ نے اپنے ناموں میں سے دو نام دینا تھے ”رﺅف“ اور ”رحیم“۔ ”عبد الرﺅف“ اور ”عبد الرحیم“ نہیں، ”رﺅف“ اور ”رحیم“۔ ”سراجاً منیرا“ چمکتا ہوا سورج۔اہلِ ایمان کو بتایا گیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے محمد پہ درود بھیجتے ہیں۔محمد کے ایک رفیق کسی غزوہ میں شہید ہوئے۔ اس پر آپ روئے تو آسمان سے فرشتہ نازل ہوا اور کہا کہ آسمان والے بھی اس پر آپ سے تعزیت کرتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والا انصاری جوان وجاہت کا ایسا نمونہ تھا کہ چلمنوں کے عقب سے جھانکے جاتے۔ سرکار نے اوّل تو دعا کی۔ پھر قبولِ اسلام کی دعوت دی۔ اس نے کہا: ایسا گناہ مجھ سے سرزد ہو چکا کہ اللہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی نورِ نظر کی تدفین کا واقعہ سنایا تو آپ گریاں ہوئے اور اتنے کہ آسمان سے معافی کا پیمان اترا۔کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی تیمارداری کرنے والے پیمبر کی امت کو کیا ہواکہ دل پتھر کے ہو گئے۔ طائف ہی نہیں، پھر شعبِ ابی طالب بھی۔ ابو لہب کے سوا جہاں آپ کا سارا خاندان سوا دو برس پڑا رہا۔ بچوں نے سوکھے ہوئے پتّے کھائے، درختوں کی چھال ؛حتیٰ کہ چمڑا ابال کر۔ غالباً یہی وہ ایام تھے کہ پہلی اور آخری بار حسرت کی ایک لہر آپ کے دل میں اٹھی۔ اپنے پروردگار سے آپ نے یہ کہا: دشمنوں کے گھر مال و دولتِ دنیا سے بھرے ہیں۔ محمد اور آلِ محمد ایک ایک لقمے کو ترس گئے۔ اسی پہ وہ آیات نازل ہوئیں : ہم تو ان کے گھر سونے چاندی کے بنا دیتے کہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ جنہیں آخرت عزیز تھی، انہیں یہ کہا گیا تھا: واذا خاطبھم الجاھلون قالو اسلاماً۔ جب جاہل ان سے الجھنے کی کوشش کریں تو وہ طرح دے جاتے ہیں۔ سلامتی کی دعا دیتے گزر جاتے ہیں۔ صحرا کی سفاک آندھی میں کہ چہرا ہو تو ریگ کے ذرے جلد چھیل دیتے ہیں، سرکار? ابو جہل کے دروازے پر گئے تھے۔ شاید ڈر گیا ہو۔ دل شاید نرم ہو گیا ہو۔ شاید اسلام قبول کر لے۔ ابو جہل نے کہا تھا: میں جانتا ہوں کہ محمد سچے ہیں۔ پھر یہ کہا: بنو ہاشم نے دعوتیں کیں اور ہم نے بھی دعوتیں کیں۔ حاجیوں کو انہوں نے پانی پلایا اور کھانا کھلایا۔ ہم ان کے مقابل رہے۔ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک پیغمبر نازل ہوا ہے۔ اگر مان لیں توہمارے پاس کیا باقی بچا۔قرآنِ کریم کہتاہے کہ دل پتھر ہو جاتے ہیں بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں، جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ کفار کے قلوب پتھر ہو گئے تو اس میں تعجب کیا۔ مسلمانوں کے دل کیوں سنگ ہونے لگے؟ وہ ایک دوسرے کو کیوں معاف نہیں کر سکتے۔ طائف اور شعبِ ابی طالب ہی نہیں، احد اور بدر و حنین بھی راستے میں آئے۔ جنگِ خندق میں بے بسی کا وہ دن بھی آیا کہ دس ہزار کا لشکر مدینہ کے نواح میں اترا تھا۔ یہودیوں سے ان کی سازباز تھی۔ بے چارگی ایسی کہ مدینہ کے مسلمانوں نے جنگ بندی کے لیے یہود کو کھجوروں کی آدھی پیداوار کی پیشکش کی۔ خندق کھودی گئی اور اس حال میں کہ ہر ایک کے پیٹ پر پتھر بندھا تھا اور پیمبر کے پیٹ پر دو پتھر۔ واشنگٹن اور ماسکو نے امارات اسلامی افغانستان کا تصور قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ طالبان کو وہ مانتے ہیں۔ ذہنی طور پر ان کا اقتدار قبول کرنے کو بھی آمادہ لیکن مراسم اور تعاون کے لیے ان کی شرائط ہیں۔ ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ میں طالبان کو سوا چار بلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ تین بلین ڈالر تو صرف فوج کو چاہئیں۔ نہ ملیں تو دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ 800ملین ڈالر کی سالانہ آمدن سے تو سرکاری ملازمین کے واجبات بھی ادا نہیں ہو سکتے۔ یہ معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پرانی پالیسی پر گامزن رہیں تو ہزارہ قبائل، تاجکوں اور شمال کے ترکوں سے مصالحت ممکن ہی نہیں۔ نیویارک ٹائمز کے لیے سراج الدین حقانی نے یہ تو کہا کہ خواتین کو تعلیم ملے گی۔ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ یہ پیمان بھی کیا کہ القاعدہ اور داعش کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اسی ہنگام مگر یہ بھی کہا کہ ان کے سردار ملا ہیبت اللہ مختار کل ہوں گے۔ ان کی پسند کا وہی پرانا اسلامی نظام واپس آئے گا۔وہ نظام جو ان کی اپنی پسندیدہ مذہبی توجیحات اور پختون روایات کا ملغوبہ ہے۔ جس میں کوئی بھوکی عورت بھیک نہیں مانگ سکتی بلکہ محرم کے بغیر گھر سے باہر ہی نکل نہیں سکتی۔ ورنہ اس پر لاٹھیاں برسائی جائیں گی۔ بالشت بھر لمبی داڑھی رکھو ورنہ جیل جاﺅ۔ الیکشن کا سوال ہی نہیں کہ دور خلافت میں کبھی الیکشن نہ ہوئے۔ میثاق مدینہ میں مسلمان، یہود، مشرکین اور عیسائی ایک ہی امت قرار پائے تھے۔ حملہ آور کا سبھی کو مل کر مقابلہ کرنا تھا اور حقوق سب کے برابر۔ 11 اگست 1948ء کو نشر کی جانے والی قائد اعظم کی تقریر کو اہل علم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کے دن مشرکین کی اکثر شرائط سرکار نے مان لیں۔ عمرہ ادا کیے بغیر لوٹ آئے۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ کوئی مکی قبول اسلام کے لیے مدینہ پہنچے تو واپس کر دیا جائے گا۔ ابوجندل لوٹا دیئے گئے۔ یہ الگ بات کہ اپنے محافظوں سے اس نے تلوار چھینی، ٹھکانے لگایا اور جدہ جا کر مورچہ جما لیا۔ افغانستان میں طالبان کی فتح کا جشن منانے والوں کو تامل سے کام لینا چاہئے۔ آگ کا دریا وہ عبور کر چکے لیکن کئی ندیاں نالے، پہاڑ اور ریگزار ابھی عبورکرنا ہیں، بستی بسنا کھیل نہیں ہے۔ بستے بستے بستی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here