سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! اپنا شہر لاہور اپنا گھر اپنی مرضی، ایک درخت کے سایہ میں بیٹھا ملکی حالات پر کالم درج کرنے کی جسارت کر رہا ہوں پچھلے ہفتہ شدید سردی کی لہر تھی گھروں سے باہر بھی اور اندر بھی ٹھر ٹھر کانپ رہا تھا، اتنا تو میں کبھی نیویارک میں سردیوں میں بھی نہیں کانپا ،اس بار میں وطن عزیز کی سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں کو دیکھنے اکیلا ہی چلا آیا ہوں، میرے ساتھ اکثر میاں بل گیٹ یا رئیس نیئر، قمر بشیر، بھی ہوتے ہیں۔ نواب زادہ میاں ذاکر نسیم امریکہ ق لیگ کے صدر اور بیرسٹر رانا شہزاد وہ دونوں ہی دوست اپنی اپنی جگہ نابعہ روز اور ہمہ جہت شخصیت ہیں بیرسٹر رانا شہزاد نے سمجھا کہ عمران خان کی حکومت نے جا بجا ٹورازم کا چرچا کیا ہوا ہے اور سیاحوں کیلئے دلچسپی کے سامان کا بھی بندوبست ہے اور بھٹو مرحوم کی مولویوں کے جبر سے سیاست میں سب سے زیادہ لطف پہنچانے والے سامان خورد و نوش پر پابندی اٹھا لی ہے۔ بیرسٹر رانا صاحب کو میرے جیسے کسی منچلے دوست نے دوستی کا واسطہ دے کر سامان نوش کی چند بوتلوں کی فرمائش کر دی اور کہا کہ محترم عمران صاحب بھٹو سے کہیں زیادہ بہادر ہیں اور انہوں نے مولویوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باہر سے آنے والے مسافروں بالخصوص جو غیر ملکی پاسپورٹ رکھتے ہیں کیلئے پروانہ راہ داری کی اجازت دے دی ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔
قارئین وطن! ہمارے سادہ دل بیرسٹر صاحب منچلے دوست کی باتوں میں آگئے اور ٹورازم کو دوام دینے کیلئے حضرت غالب مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہ عمران خان کی حکومت تو اپنی ہے گدھے پہ لادھنے کی بجائے اپنے کاندھے پر سامان نوش لاد لائے اور ایئرپورٹ پر دھر لئے گئے اور ان کی شو مئی قسمت ایک داڑھی والے کسٹم آفیسر نے اُن کے سامان پر قبضہ جما لیا جیسے اس کے باپ کا سامان ہے۔ بیرسٹر صاحب نے ہزار منتیں کی لیکن پکی ہڈی والے بابے نے ان کی ایک نہ سنی، یوں حلقہ یاراں بوند بوند کو ترس گیا، ہم دوستوں نے کہا کہ بیرسٹر صاحب جہاں آپ نے اپنے دوستوں کیلئے اتنا کیا کہ سامان نوش کا بوجھ اُٹھایا وہیں پر مولانا صاحب کو گرین ڈالر کی جھلک بھی دکھا دیتے۔ بیرسٹر صاحب اپنی نیم گداز آواز میں بتاتے ہیں کہ افسر کی نظریں بار بار ان کی جیب تک جاتی تھی لیکن انہوں نے بھی قسم اٹھا رکھی تھی کہ عمران خان کی حکومت میں رشوت نہیں دینی کہ ان کو حدیث یاد آگئی کہ ”رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں دوزخی ہیں“ اور اس خوف نے ان کو ایک بڑے گناہ سے بچا لیا اور ہم سامان نوش کی بوند بوند کو ترس گئے۔
قارئین وطن! آج جہاں حکومت پاکستان سیاحت کو اہمیت دے رہی ہے اور ہمارے شمالی علاقہ جات ٹورازم کے حوالے سے بڑے دلکش منظر پیش کر رہے ہیں کہ یورپ کے بھی ایسے دلکش مناظر نہیں ہیں۔ لیکن عمران خان کو سمجھائے کوئی کہ ٹورازم کیلئے آنے والے اگر اپنے دل کو خوش کرنے والے لوازمات سے محروم رکھیں گے توہ وہ یہاں کیا لینے آئیں گے، وہ ترکی، دوبئی، بنگلہ دیش اور دلفریب مقامات پر کیوں نہ جائیں جو مولویوں کے جبر سے آزاد ہوں۔ عمران خان اور اس کی کابینہ کو اس مسئلہ پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ہمارے ہر دلعزیز نواب زادہ میاں ذاکر نسیم خاص دیپالپور سے اپنے باغوں کے امرود لے کر آئے اور دوسرے دوستوں کےساتھ گُھل مل گئے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میرے بھانجے سلمان لالیکا سے ان کی بڑی دوستی ہو گئی ہے اس کی وجہ کہ دونوں کا کاشت کاری سے گہرا تعلق ہے نواب صاحب اور میرے پاٹنر اور چھوٹے بھائی شعیب شیخ کی بڑی مہربانی کہ دونوں دوستوں نے ایئرپورٹ پر پروٹوکول کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ نواب صاحب نے ایف آئی اے والوں کو کہا ہوا تھا اور شیخ شعیب کہ ان کے بھائی پولیس میں ایس ایس پی لگے ہوئے ہیں دونوں نے اپنا الگ الگ تعارف کروایا تو مجھے ہنسی آنے لگی خیر ان دوستوں کا بھلا ہو کہ ہم بھی عزت و آبرو سے نکل باہرآئے اور سامان نوش بھی، زندگی دوستوں کےساتھ ہی ہنستے کھیلتے گزر جائے اور لحد کے قریب قریب کیا چاہیے!
قارئین وطن! جب سے آیا ہوں پہلی مرتبہ لاہور ہائیکورٹ تشریف لے گیا،لاہور ہائیکورٹ جن لوگوں کے دم سے گونجتا تھا ملک سعید حسن، کاظم جان، سیال مسعود، اور رانا اعجاز ان مرحومین کی وجہ سے کیانی ہال گونجتا تھا۔ اللہ ان سب دوستوں کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ میرے دو دوست راشد لودھی اور توصیف بھٹی جنہوں نے ملک سعید حسن کارنر کو اپنی خوش گپیوں سے قائم و دائم رکھا ہوا ہے کچھ دوستوں کو غیر حاضر پا کر ان کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ برو زمنگل بلاول زرداری ہائیکورٹ کراچی ہال میں تشریف لا رہے ہیں اور اس کی آمد کی تیاری میں سب مصروف ہیں، ہماری ملکی سیاست کا بھی کیا حال ہے۔
٭٭٭