مہمان کالم: ہارون الرشید
غیر ملکی دشمنوں پر پاکستان اور افغانستان نے فتح پا لی ہے۔ اب امتحان یہ ہے کہ اپنے اندر وہ آہنگ پیدا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔صداقت ہی نہیں مومن صبر و حکمت سے بھی سرفراز ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک فرمان الٰہی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو مات نہیں ہوئی، شہ مات ہے یہ شہ مات۔ صرف امریکہ نہیں، یہ بھارت کی شکست ہے۔ ان دہشت گرد گروہوں کی بھی جو ملّا عمر کے نام پر پاکستان میں قتلِ عام کا کھیل کھیلتے رہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا بھی اب کوئی مستقبل نہیں۔اس کے لیڈر نے اعلان کیا تھا کہ آنے والے کل میں پاکستان کا صدر پشتون ہو گا، وزیرِ اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف بھی۔ یہ خوف کا وہی حربہ تھا، جو احمق برتا کرتے ہیں۔ جو نہیں جانتے کہ یہ ہتھیار بہت احتیاط، بہت سلیقہ مندی سے خال خال استعمال کیا جاتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی پشت پر بھارت کی ”را“ اور افغانستان کی ”خدمتِ اطلاعات دولتی“NDSکا ہاتھ تھا۔ پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے امریکی تائید بھی حاصل تھی۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں میں امریکی فوج کے سبکدوش افسر بھی شریک تھے۔پی ٹی ایم سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اشرف غنی کی پارلیمنٹ کے ارکان نے ان کی مخصوص سرخ ٹوپیاں اوڑھیں‘ یہ پیغام دینے کے لیے کہ پاکستان کی شکست و ریخت ان کی ترجیح ہے۔ اشرف غنی آج حالات اور ہوا کے رحم و کرم پر ہیں۔جو بویا تھا اب کاٹنا ہے۔ کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو یہ افغانستان میں قیام پذیر قاتل گروہوں کی بے بسی اور لاچاری کا دن ہے۔ کون اب انہیں گود میں اٹھائے گا۔ کون اب انہیں روپیہ اور اسلحہ دے گا۔ پاکستان میں پشتونوں کے حقوق ہیں اور کیوں نہ ہوں۔ مملکت خداداد میں پشتو بولنے والوں کی تعداد افغانستان سے زیادہ ہے۔ پشتونوں کا سب سے بڑا شہر کابل نہیں پشاور اور اس سے زیادہ کراچی ہے۔ ان کے لہو کا رنگ اتناہی سرخ ہے، جتنا کسی پنجابی، سندھی اور بلو چ کا۔ ان کی جان و مال اور آبرو اتنی ہی محترم ہے، جتنی کسی بھی اور کی۔ رہی صدارت، وزارتِ عظمیٰ او رسپہ سالاری تو اس کا انحصار علاقائی یا لسانی وابستگی پہ نہیں ہوتا۔ پشتون اور پنجابی تو رہے ایک طرف، فوج میں جن کی اکثریت ہے، دو اردو بولنے والے پاک فوج کے سربراہ رہ چکے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل پرویز مشرف۔ جنرل کاکڑ اور ایوب خان سمیت کتنے ہی پشتون پاک فوج کے سرخیل رہے۔ ان میں سب سے زیادہ محترم جنرل عبد الوحید کاکڑ سمجھے جاتے ہیں۔ صدر اور وزیرِ اعظم کے انتخاب کا انحصار حالات اور عوامی تائید پر ہوتا ہے۔دس سال تک ایوب خان پاکستان کے صدر رہے۔ برسوں تک خان عبدالغفار خان کے بھائی خان عبدالجبار خان مغربی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ۔ الیکشن 2008ء کے بعد آصف علی زرداری نے اسفند یار ولی خان کو صدارت پیش کی تھی، یہ الگ بات کہ خود ان کا خیال بدل گیا اور پھر آپ ہی ایوان میں براجمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ وکی لیکس میں ہونے والا این ڈبلیو پیٹر سن کا انکشاف مغالطے کا نتیجہ تھا کہ یہ تجویز چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تھی۔ اس تار کے متن میں لکھا ہے: جنرل نے لکھا ہے کہ وہ ہرگز مداخلت کے خواہاں نہیں۔ 2009ء میں جب یہ بحث جاری تھی‘ ناچیز نے جنرل کیانی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ناراضی کے عالم میں انہیں ”یو ٹو کیانی“ کہا تو ازراہِ کرم انہوں نے مجھے مدعو کیا۔ اگرچہ صدمے اور رنج کا شکار تھے۔ اگرچہ ان کا احساس یہ تھا کہ بروٹس سے تشبیہ دے کر کالم نگار توہین کا مرتکب ہوا ہے۔ اس کے باوجود نہایت شائستگی سے انہوں نے اپنے موقف کی وضاحت کی۔ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا جب میں نے ان سے یہ کہا کہ نواز شریف اور بے نظیر کے باب میں وکی لیکس کے انکشافات اگر قابلِ قبول ہیں تو ان کے بارے میں کیوں نہیں۔ انہیں فارسی کا مصرعہ بھی سنایا: قلم گوئید کہ من شاہِ جہانم اور یہ کہ میں ان کی نہیں مانتا۔ نہایت رسان سے انہوں نے کہا: کون آپ سے کہتا ہے کہ آپ میری بات مانیں مگر سن تو لیجیے۔ پھر بولے یہ ٹیلی فون رکھا ہے۔ اسفند یار ولی خان کو فون کر کے پوچھ لیجیے کہ کس نے پیشکش کی تھی؟ کیانی یا زرداری نے؟ اپنی جنگ افغان عوام نے جیت لی ہے اور اپنے زورِ بازو سے۔ دانشوروں کی کوئی کمی نہیں، جو روسی افواج کے خلاف افغان عوام کی جدوجہد کے خلاف تھے۔ جو افغانیوں کا تمسخر اڑاتے، دعویٰ کرتے کہ ساڑھے تین سو سال سے وسعت پذیر روس کو روکا کیسے جا سکتاہے۔ تب یہ لوگ سوشلسٹ کہلانا پسند کرتے تھے، پھرسیکولر ہوئے اور اب لبرل ازم کا تاج پہن رکھا ہے۔ جھوٹے نگوں والا تاج۔ انیس برس پاکستانیوں کو یہ بتاتے رہے کہ امریکہ پورے افغانستان کو تورا بورا بنا کے رکھ دے گا۔ اب خود امریکہ، بھارت اور افغانستان میں ان کے حواریوں کا تورا بورا بننے والا ہے۔ تاریخ کے کوڑے دان میں وہ ڈال دیے جائیں گے اور کوئی انہیں رونے والا بھی نہیں ہوگا۔تاریخ میں اشرف غنی، حامد کرزئی اوران کے ساتھیوں کا شمار غدّاروں میں ہوگا۔ بھارت شکست و ریخت کے راستے پرہے۔ اسے جوڑنے والی زنجیر ٹوٹ چکی۔ اب کوئی معجزہ ہی اسے متحد رکھ سکتا ہے۔ سیکولر ازم کے جس دبیز پردے نے بھارت کو ڈھانپ رکھا تھا، اسے خود آر ایس ایس اور بجرنگ دلی نے کشمیر‘الہٰ باد، دہلی اور علی گڑھ میں تار تار کر دیا۔ مسلمانوں اور انگریزوں سے پہلے ہندوستان کبھی ایک متحدہ ملک نہ تھا۔ ہندوستانی کبھی ایک قوم نہ تھے۔ اس میں شودر، کھتری، ویش اور برہمن بستے ہیں۔ من موہن سنگھ سے پہلے اس کے سارے حکمران برہمن جاتی کے تھے۔ ہندوستان میں ہندوستانی کم ہیں، بنگالی، آسامی، کیرالوی، پنجابی اور کشمیری زیادہ۔ کشمیریوں نے بغاوت کا علم بلند کر رکھا ہے اور اب یہ علم سرنگوں نہیں ہو سکتا۔ایک دن طالبان ہی کی طرح وہ فتح کی خلعت پہنیں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان متحد ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کو اس نے مات دے دی ہے۔ علیحدگی پسندی خاک بسر ہے۔ غیر ملکی کارندے اس قدر شرمسار کہ اپنا موقف بیان کرنے کے قابل بھی نہیں۔ بھارت، اس کے ہمنوا وں اور سرپرستوں نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے کر تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن اب اس کے سر پہ امن کا تاج رکھا ہے۔ اس کی معیشت کے جاگ اٹھنے کا امکان پیدا ہو چکا۔ ایک منور مستقبل اس کا منتظر ہے۔ غیر ملکی دشمنوں پر پاکستان اور افغانستان نے فتح پا لی ہے۔ اب امتحان یہ ہے کہ اپنے اندر وہ آہنگ پیدا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہ لکھا ہے: تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔صداقت ہی نہیں مومن صبر و حکمت سے بھی سرفراز ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک فرمان الٰہی ہے۔
٭٭٭