سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جیسے جیسے دن ڈھلتا ہے شام کو ایسا نیند کا غلباءحملہ کرتا ہے کہ احباب کا جھمگٹا ہوتا ہے اور میں خراٹے مار رہا ہوتا ہوں وہ بیچارے برداشت کرتے ہیں کہ مہمان ہے اور تھکا ہوا ہے خیر عمر کا بھی تقاضا ہے جبکہ کچھ سال پہلے تک تو خراٹوں کاپتہ ہی نہیں چلتا تھا، ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پریکٹیکل سیاست میں وہ پہلی سی دلچسپی نہیں رہی اس کی بنیادی وجہ کہ مجھ کو مکمل طور پر احساس ہے کہ مین وطن سے غیر حاضر ہونے کی وجہ سے وہ کردار ادا نہیں کر سکتا جو موجودہ شخص کر سکتا ہے۔ ایک تو جس دوست کے بارے پوچھو پتا چلتا ہ کہ وہ اللہ کو پایرا ہو گیا ہے اللہ ان سب دوستوں کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل ان دوستوں میں ایک آفتاب قریشی جو ہمارے ساتھ پنجاب باکسنگ کلب میں کھیلا کرتا تھا پتہ چلا کہ وہ اپنی ایم فِل بیٹی کا معقول رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور اسی غم میں چل بسا۔ کل بروز ہفتہ ہائیکورٹ بار کا الیکشن تھا توصیف بھٹی ایڈووکیٹ وعدہ کر کے مجھے ہائی کورٹ لے کر نہیں گئے ان کا عُذر یہ تھا کہ اس بار انتظامیہ نے بڑی سختی کی ہے اور وکلاءکے علاوہ کسی کو احاطہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے بغیر کارڈ کے لیکن اطلاع یہی ہے کہ عاصمہ جہانگیر مرحوم کے گروپ کا بندہ بھاری اکثریت سے جیت گیا ہے طاہر نصر اللہ وڑائچ ایڈووکیٹ اور حامد خان گروپ کو بہت بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ہمارے دوست نے بتایا کہ امیدواروں میں ایک امیدوار نے اپنی بیوی کو قتل کیا ہوا ہے اور دوسرے نے کسی اور کو اور اس بار مقابلہ قاتلوں کے درمیان ہوگا۔ اور اس بار امن عامہ خراب ہونے کا بھی ڈر ہے کہ کوئی پتہ نہیں کس جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو جائے اب پتہ نہیں ہمارے دوست رانا رمضان جیتنے والے گروپ کے حامی ہیں یا ہارنے والےگ روپ سے تعلق رکھتے ہیں یقیناً اس بار بھی انہوں نے اپنے حامی کیلئے کنونسنگ کی وہوگی کہ عمر کہ اس حصہ میں وہ وکلاءسیاست کو ہی شطرنج بورڈ سمجھتے ہیں اور جیتنے اور ہارنے والے کو مہرے۔ ابھی اطلاع ملی ہے کہ ہمارے پیارے دوست عارف چوہدری ایڈووکیٹ جو نیویارک اور پاکستان دونوں جگہ کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں کا امیدوار بھی الیکشن نہ جیت سکا اور وہاں بھی عاصمہ جہانگیر کا پلڑہ باری رہا۔ قارئین وطن! ایک زمانہ ہوتا تھا کہ وکلاءکا الیکشن ایک پُروقار پلیٹ فارم سمجھا جاتا تھا، اب وہ ججوں کو بلیک میل اور لوٹ مار کا دھندا سمجھا جاتا ہے۔ ہائیکورت اور سپریم کورٹ بار ملک کی سیاست کو گاڑی کی طرح چلاتی تھی لیکن اب یہ ریڑہ یا تانگہ بن گیا ہے۔ اللہ اس ادارے کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرے کہ مجھے تو اس فیکلٹی سے بڑی عقیدت ہے کہ میرے مرحوم والد سردار ظفر اللہ ایڈووکیٹ اور میرا بیٹا سردار اسد اللہ اس پیشہ سے منسلک تھے اور ہیں۔
ابھی اخبار پر نظر پڑی تو یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فوجی انخلاءکا معاہدہ طے پا گیا ہے اور جلد ہی خطہ میں امن بحال ہوگا اللہ کرے کہ کشمیر میں بھی امن بھال ہو، اور وہاں کی روز مرہ زندگی میں خوشگوار ماحول پیدا ہو۔
عمران خان کی حکومت اپنی بحالی کی طرف گامزن ہے لیکن چند ایک ٹی وی اینکر کہیں نہ کہیں سے شہباز اور مریم کو سیاست میں زندہ رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں خاص طور پر دنیا کا ایک اینکر سلمان غنی جس کو ہر طرف شہباز اور مریم کی وجہ سے سیاست میں ہریالی نظر آتی ہے اس کا بس ایک ہی نقطہ¿ نظر ہے کہ نواز اور بیٹی اپنی بیمار مرتی ہوئی بیوی اور ماں کو چھوڑ کر واپس آگئے ہیں تو پھر ااجائیں گے پوری قوم جانتی ہے کہ وہ کس حالت میں واپس آئے ہیں لیکن کیا کیا جائے چپڑاسی نما اینکر جو ان کی روکھی سوکھی پر پلر ہے ہیں ان کو ہیرو بنا کرپیش نہ کریں تو وہ بھی سیاسی خاک میں دفن ہو جائیں گے میرے کچھ دوست اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے مجھے اس گند میں دھکیل رہے ہیں کہ میں خوامخواہ اس کھیل میں ان کا حصہ دار ہوں۔
قارئین وطن! سیاسی اور معاشرتی ماحول اتنا آلودہ ہو چکا ہے کہ میں اپنی پرانی یادوں کو زندہ کرنے کیلئے باغ جناح بھی نہیں جا سکا جو میرے گھر سے پندرہ منٹ کی واک پر ہے اللہ خیر کرے میرے وطن کی کہ امریکی انخلاءکی وجہ سے جلد خطہ میں امن ہو جائے۔
٭٭٭