شبیر گُل
اللہ رب العزت ہم سب کاپالنہار ہے۔وہ ہم سب کا خالق ہے اور ہم ا±س کی مخلوق۔مالک کائنات کااحسان ہی کہ ا±س نے ہمیں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا اور بہترین ا±مت بنایا۔ یہ رب کائنات کی ہم پر خصوصی کرم نوازی ہے کہ ا±س نے ہمیں انسان کے روپ میں پیدا کیا۔لیکن ہم اپنے کردار سے جانور ہونے کاثبوت فراہم کرتے ہیں۔لوگوں کا دل دکہانا، تکلیف پہنچانا۔الفاظ کی تیر سے دلوں کو چھلنی کرنا ہمارا وطیرہ ہے۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس مختصر زندگی کے ہر ہر لمحے کاہم نے حساب دینا ہے۔ہم جو بہی بول یا لکھ رہے ہیں، ا±سکا جواب دینا ہے۔ہم اللہ کو ضرور مانتے ہیں لیکن ہم اللہ کی نہیں مانتے۔نہ ہم ا±سکی عبادت گزاری کرتے ہیں،نہ شکر گزاری اور نہ صبر سے کام لیتے ہیں۔ ہم شکوے بہت کرتے ہیں۔دوسروں پر بہت نظر رکھتے ہیں۔ کردار کشی اور عیب چینی کو اپنا لیتے ہیں۔ اخلاقی اعتبار سے دوسری اقوام سے بہت پیچھے ہیں۔ دوسروں کی عزت کی دھجیاں ا±ڑانا ہمارا مشغلہ ہے،جو اللہ کو نا پسند ہے۔زندگی بہت مختصر ہے، طنز کرنے کی بجائے کسی پر احسان کرنے میں گزاریں۔ہمارے معاشرہ میں تنقید اس قدر پائی جاتی ہے کہ ہم دوسروں کاجینا حرام کردیتے ہیں۔کبھی بھی کسی بات کی جڑ تک پہنچے بغیر ، پہلی نظر میں ہی تبصرہ کرنا ہماری گھٹی میں شامل ہے۔زندگی میں لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں۔جھگڑے طویل نہ ہونے دیں معاف کرنا سیکھیں کیونکہ اللہ رب العزت معاف کرنےوالوں جو پسند فرماتے ہیں۔بے جا قدورتیں اور نفرتیں پال کر دوسروں کو بے سکون تو کرتے ہیں لیکن اپنا سکون بھی برباد کرتے ہیں۔زندگی کونفرتوں اور عداوتوں کے پیچھے ضائع مت کریں۔ ہم اپنی خواہشات کی تکمیل میں دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔کمیونٹی کے افراد کو چاہئے کہ کرونا جیسی خطرناک بیماری سے نمٹنے کی خفاظتی تدابیر اپنائیں۔ اس پر زوم میٹنگز کریں۔ آگاہی پیدا کریں۔ تاکہ ہم اس کے مہلک اثرات سے بچ سکیں۔کمیونٹی کو اس کے خطرناک نتائج کا بالکل احساس نہیں۔ہر دوسرے دن کمیونٹی کا کوئی نہ کوئی فرد وفات پار رہا ہے۔ہمیں دیار غیر میں اپنی ڈائٹ کا خیال رکھنا چاہئے۔پے در پے بیشمار افراد دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔ جہاں اس وائرس نے خوف خدا رکھنے والوں کو عجز و انکساری کی طرف مائل دیکھا ہے۔ وہاں فرعونیت ذہنیت کے لوگ بھی موجود ہیں جو ہر روز کسی نہ کسی کی پگڑی اچھال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر معیار سے گری گفتگو نے کمیونٹی میں کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔کمیونٹی سوشل میڈیا پرسوائے پارٹی پالیٹکس کے مثبت بات س±ننے کو نہیں ملتی۔سینکڑوں واٹس ایپ گروپ ہیں۔ہر سیاسی جماعت کی ہر دھڑے کا اپنا گروپ۔ ہر مسلک کے کئی کئی دھڑے ہیں سب کا اپنا اپنا گروپ ہے۔ کل کے معصوم آج کے فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا کی ہر نعمت ہر انسان کو عطاءنہیں کی۔بلکہ فرق رکھا ہے اور یہ فرق بھی اس کی تخلیق کا کمال ہے۔کسی کو اس نے قابل رشک صحت دی۔ کسی کو علم کا ہ±نر دیا۔ کسی کو بے تحاشا دولت دی۔اور کسی کو کم۔کسی کو بولنے اور لکھنے کی صلاحیت عطاءفرمائی۔کسی کو دین کی سمجھ بوجھ اور رغبت دوسروں سے زیادہ عطا فرمائی۔کسی کو بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔اور کسی کو بیٹیوں اور بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔ہم ا±س مالک کا شکر ادا کرنے کی بجائے دوسروں کی عزت اچھالنے پر وقت برباد کررہے ہیں۔ ایسا کرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ لیکن دراصل اپنی گھٹیا ذہنیت اور اندر کے جانور کی نشاندہی کر رہے ہوتے ہیں۔کل ہمارے دوست چوہدری عبدالرحمن کا اچانک ہارٹ فیل ہونے سے انتقال پر محسوس ہوا کہ زندگی کو کسی بھی منفی کام میں صرف مت کریں۔ چوہدری عبدالرحمن کے اچانک انتقال پر کمیونٹی صدمے میں ہے۔ میں نے ذاتی طور پر انکی میت کو لاوارث محسوس کیا۔ اپنے گرد اچھے دوستوں کا حلقہ بنا کر رکھیں۔ اچھے دوست کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔ جو لوگ آپکی غیر موجودگی میں آپکی عزت کے مخافظ نہ ہوں وہ آپکے کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔اسلئے دوستوں کے انتخاب میں ا±سکے نسلی ہونے کی احتیاط ضرور رکھیں۔کیونکہ دوستوں کو آپ گھروں اور دفاتر میں مدعو کرتے ہیں۔ اگر بے نسلی ہونگے تو جس تھالی میں کھائے گا اسی میں چھید کرئے گا۔اور یہ یاد رکہیں بہت زیادہ بھیڑ کی نہیں چند مخلصین کا حلقہ احباب رکھیں جن کے کردار کی پرچھائیاں آپکی شخصیت میں نکھار پیدا کر سکیں۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ دوستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں کیونکہ دراصل آپ اپنے جنازے کی پہلی صف کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔ آج سے چند برس قبل ایک شخص واحد بخش بھٹی جس نے اپنی تحریروں سے بیشمار لوگوں کا دل زخمی کیا۔میں نے سنا ہے کہ جب لوگ خانہ کعبہ جاتے تو وہاں ا±س بد بخت کےلئے بد دعاءکرتے تھے۔ اسی طرح اس شہر میں تین غلیظ افراد نے کئی لوگوں کو بلیک میل کیا ہے۔ دل آزاری کی ہے۔ ایسے لوگوں کا بائیکاٹ ہونا چاہئے۔ان کو اپنے گھروں پر مدعو نہ کریں۔ نجی مخافل میں نہ بلائیں۔ یہ بدکردار لوگوں نے کمیونٹی کے امیج کو داغدار کیا ہے۔مثبت کام کرنےوالوں کی حوصلہ افزائی اور منفی کام کرنےوالوں سے اجتناب کرنا کمیونٹی کا وطیرہ ہونا چاہئے۔دیار غیر میں ایک خاندان اور فیملی کی طرح رہنا چاہئے۔ ایکدوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا سنت رسول اللہ ہے۔اسکو کو اپنانا چاہئے تاکہ کمیونٹی میں اتحاد بڑھے اور ہماری نوجوان نسل پر اچھا تاثر قائم ہوسکے۔ہمارے بعد آنےوالی دوسری کمیونیٹیز نے اپنی سوشل ایکٹیوٹیز ،فیملی کونسلنگ اور مثبت ہیرٹیج کلب بنا رکھے ہیں۔ جہاں ایکدوسرے کی مدد کی جاتی ہے۔ ہمیں اس پر سوچنا چاہئے کہ ہمارے اندر اس کا فقدان کیوں ہے؟جب ہم تعداد میں تھوڑے تھے ہماری آواز اور کام کی قدر تھی۔ آج ہم لسانیت ،فرقہ واریت، کرپٹ سیاست اور ذاتی عناد میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ جس کا نقصان نوجوان نسل نے مذہب اور کلچر کی شکل میںکیا ہے۔کیا ہم اپنے مذہب، اپنی زبان ،اپنی ثقافت ،اپنے کلچر، اور وطن سے نوجوان نسل کو جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے تاکہ ہماری کمیونٹی بھی دوسری کمیونٹی کی طرح اپنی شناخت قائم کر سکے۔