واشنگٹن ڈی سی میں عمران خان کارکنان سے ٹرمپ تک

0
198

کچھ چیزیں دہائیوں پر مشتمل انسانی جذبات جب اچانک لمحوں میں ہماری زندگیوں میں پورے ہوتے نظر آئیں تو خاص طور پر جذبات میں نے گزشتہ تین دن اپنے واشنگٹن سے متصل ریاست ورجینیا کے شہر سپرنگ فیلڈ میں دیکھا۔ عمران خان کے موجودہ دورہ کی دھوم آج یو ایس آئی پی جو کہ واشنگٹن ڈی سی میں ایک بہت اہم تھنک ٹینک کے سامنے وزیراعظم عمران خان کا خطاب اور چبھتے ہوئے سوالات کے جوابات‘ جمعہ سے اتوار تک تقریباً پچاس میل کے دائرے میں ہزاروں پاکستانی دو ستاروں والے ہوٹل سے لے کر پانچ ستاروں والے ہوٹل پاکستانیوں سے بھرے ہوئے نظر آئے۔ پہلی بار میں نے اپنی پچیس سال کی امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد ہزاروں پاکستانیوں کو امریکہ کینیڈا سے واشنگٹن تک بغیر تعصب‘ علاقائی اختلافات یا کسی مسلکی تفریق کے دیکھا۔ امریکہ‘ کینیڈا میں گرمیوں کی سکول سے چھٹیوں میں والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی معاشی استطاعت کے مطابق بچوں کو کہیں لے کر جائیں۔ اس میں امیر غریب امریکی نظام میں پرورش پانے والے بچوں کو مختلف تفریحی شہروں میں لے کر جاتے ہیں لیکن اس بار تقریباً دس ہزار سے زائد خاندان اپنے بچوں کو کیپیٹل ون ایرینا عمران خان کا خطاب سنانے دنیا کی راجدھانی واشنگٹن لے آئے جہاں پی ٹی آئی امریکہ بھر کی شاخوں کے ذمہ دار گزشتہ چار ہفتوں سے دن رات ایک کر کے مہم اور رابطوں کے ذریعے انتہائی متحرک تھے جس میں کلیدی کردار چونکہ واشنگٹن میری لینڈ اور ورجینیا سے وابستہ رضاکاروں اور پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو جاتا ہے جسے ٹرائی سٹیٹ کی جانی پہچانی سماجی‘ سیاسی شخصیت جانی جانی بشیر لیڈ کر رہے تھے‘ بلاشبہ جانی بشیر اور ان کے تمام رضاکار داد تحسین کے قابل ہیں۔ نیویارک سے امجد نواز‘ چوہدری پرویز ریاض‘ نیوجرسی سے سیم خان اور ندیم یوسف اپنی عائد ذمہ داریوں کے ساتھ وقت‘ پیسہ اور توانائی اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ انتھک محنت کرتے مسلسل واشنگٹن یاترا پر جا کر متعلقہ خطاب کی جگہ پر آگاہی حاصل کرتے رہے بلکہ امریکہ بھر سے سینکڑوں قافلے ہوائی جہازوں‘ ٹرینوں‘ بسوں اور ذاتی گاڑیوں کے ذریعے واشنگٹن کے اطراف جمع ہوچکے تھے۔ میں نے ذاتی طور پر جمعہ سے لیکر اتوار 22 جولائی تک درجنوں خاندانوں سے واشنگٹن آنے کی وجہ دریافت کی تھی۔ یہ آواز عمران خان کو سننے کے جواب پر ختم ہوئی۔ وہ اپنے امریکہ میں پروان نسل کو اپنے رسم و رواج‘ لباس‘ کھانوں اور پاکستانیت کے بارے میں آگاہی جیسے اقتباسات بتائیں گے۔ اتوار کی صبح جب میں گیارہ بجے مسکن امریکی صدر وائٹ ہاﺅس سے بمشکل ایک میل دور کیپٹیل ون ایرینا کے ہر دروازے پر کئی ہزار افراد عورتوں‘ بچوں‘ بزرگ اور نوجوانوں کو کھڑے دیکھا‘ شدید گرمی‘ سخت ترین موسم اور سورج سوا نیزے پر حسب روایت پاکستانیوں کا امتحان لے رہا تھا لیکن آج پاکستان سے باہر پہلی بار ایک ایسا میلہ لگنے جارہے تھا جو شاید میری زندگی میں میری آنکھوں کے سامنے ایک لمحہ ایک تاریخ بن چکا تھا۔ وطن عزیز کی شدید محبت‘ والہانہ قومی نغمے‘ پی ٹی آئی کے ترانے‘ منچلوں کے پاکستانی اور تحریک انصاف کے جھنڈے پورے علاقے میں وہاں کے اپنے مکینوں کیلئے یہ پہلی بار مختلف احوال بیان کر رہے تھے۔ تین بجے تک پچیس ہزار کا ہال بھر چکا تھا اور چونکہ ٹھنڈی مشین کی وجہ سے باہر کی تپش سے نجات دھندہ پردیسیوں کا جذبہ حب الوطنی اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ عمران خان کے خطاب سے پہلے وزیر خارجہ اپنے روایت الفاظوں کی بھرمار سے ماحول گرما چکے تھے۔ عمران خان کے خطاب سے پہلے او آئی سی تحریک کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبداللہ ریاڑ چار ہفتوں سے امریکہ کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے ذمہ داران کو مختلف سہانے سپنے دکھا کر متحرک کر چکے تھے لیکن آج سٹیج پر عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے اصل ہیروز کے بجائے روایتی نوکر شاہی اور کبھی بھی پی ٹی آئی کے اقتدار سے پہلے کبھی دھرنوں‘ سڑکوں‘ شاہراہوں یا اقوام متحدہ نیویارک کے سامنے لڑنے مرنے والے شکست کھا گئے۔ عبداللہ ریاڑ اور سجاد برکی اپنی سینئر شپ یا وفاقی مشیر کی نوکریاں پکی کر گئے اور اس تاریخی عظیم الشان لمحوں کو تاریخی بنانے والے جانی بشیر اور اس کی محنت سٹیج کے باہر رضاکاروں کے ساتھ آنکھیں ملتی رہی گئی۔ کاش ان روایتی خوشامد پاکستان سے آئے کارکنوں کے پیسوں اور محنت کو چرانے والے سٹیج سے باہر سامنے پنڈال میں میں ہوتے اور جانی بشیر‘ امجد نواز‘ پرویز ریاض‘ راجہ یعقوب‘ ندیم یوسف‘ سیم خان‘ عمران بٹ‘ عمران آگرہ‘ عمران اقبال اور ندیم زمان جیسے ڈائی ہارڈ رہنماو¿ں کو سٹیج پر عمران خان کے ساتھ بٹھا کر ان کی محنت کو تسلیم کیا جاتا۔ یہ تمام ذمہ داران اور سینکڑوں رضاکاروں نے تاریخ رقم کردی۔ عمران خان کیلئے ان جیسے سینکڑوں پی ٹی آئی کے جان نثاروں اور امریکہ کینیڈا سے آنے والے ہزاروں خاندانوں نے صدر ٹرمپ سے 16 گھنٹے پہلے وائٹ ہاﺅس کو پیغام بھیج دیا تھا کہ ان کے وزیراعظم بیرون ملک سب سے پسندیدہ رہنما ہیں اور یہی بھروسہ پختہ کرکے اگلے دن پیر کے روز عمران خان جب ٹرمپ سے ملے تو ٹرمپ کی طرح صاف گوئی اور ہر چبھتے ہوئے سوالات پر انتہائی سخت باڈی لینگویج اپنی عروج پر نظر آئی۔ عمران خان کے جلسے کے دوران سوشل میڈیا خاص طور پر PMKUSA جلسہ ٹویٹر ٹرینڈ پر ٹاپ ٹین کرتا رہا چونکہ عمران خان خود اپنی فین فیلو شپ میں ہمیشہ ریکارڈ توڑتے رہے ہیں لیکن یہ جلسہ بین الاقوامی سطح پر اتوار کے دن یہ عظیم اجتماع ٹاپ ٹین رہا۔ عمران کا خطاب کچھ حسب روایت اپوزیشن پر تنقید‘ کرپشن‘ لوٹ مار کی داستان بھی سناتا رہا۔ اوورسیز پاکستانیوں کی والہانہ شرکت پر عمران خان جذباتی طور پر مشکور و ممنون نظر آئے۔ اس تمام تاریخ رقم کرنے والے صرف پی ٹی آئی کے امریکہ بھر کے دو سال سے 14 سال تک کام کرنے والے متحرک کارکنان تھے جنہوں نے سفارت خانہ عمران خان کے واشنگٹن آنے کے بعد ملاقات نہ کرانے کیلئے اپنی جنگ لڑتا نظر آیا۔ سفارت خانہ میں پاکستانی بزنش مینوں کے نام پر نوکر شاہی سفارت خانہ کے لوگ جانی بشیر اور ان کی ٹیم کی انتھک محنت کو عمران خان کے سامنے نہ لانے کیلئے اپنا روایتی کام ادا کرتے رہے بلکہ عبداللہ ریاڑ اور پی ٹی آئی ایل ایل سی امریکہ کے صدر اور مختلف نیویارک‘ نیوجرسی‘ میری لینڈ‘ شکاگو‘ ہیوسٹن‘ ڈیلاس‘ ساﺅتھ کیرولینا‘ نارتھ کیرولینا‘ اٹلانٹا‘ مشی گن‘ بوسٹن‘ لاس اینجلس‘ ٹورنٹو میں تاریخ بنانے والے سینکڑوں ذمہ داران کو پروگرام کے دوران سٹیج کے سامنے وی وی آئی پی نشستوں پر نمایاں نہ ہونے کی جنگ بھی لڑتے نظر آئے۔ یہی تاریخی جلسہ عمران خان کو ٹرمپ کے سامنے افغان مسئلے پر جرا¿ت مندانہ سوچ دینے میں مددگار ثابت ہوا جہاں 70 ہزار پاکستانی دہشت گردی اور 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان دنیا کے سپر پاور صدر کے سامنے بولنا خود تاریخی دورے کی کامیابی تھا۔ امریکی میڈیا پر عمران خان کے سوالات پر جوابات مضبوط وزیراعظم کے ساتھ نمایاں کر رہے تھے۔ صدر ٹرمپ کے منہ سے کشمیر کے موضوع پر ایک انوکھا جواب جو کہ دو ہفتہ پہلے بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے حوالے سے تھی جس میں مودی صدر ٹرمپ سے کشمیر مسئلے پر ثالثی کا کہہ رہا تھا۔ وہ پاکستان کی بڑی کامیابی تھی‘ پورے بھارت اور خاص طور پر بھارتی میڈیا میں صف ماتم بچھ گئی۔ اس عظیم کامیاب دورے میں پاک امریکہ تعلقات میں ایک نیا خوشحال موڑ آیا۔ پاکستان کی عسکری قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی پینٹاگان میں امریکی عسکری قیادت کے ساتھ معاملات طے کر چکا تھا۔ پہلی بار پاکستان کی جمہوری اور عسکری قیادت ا مریکی ملٹری اور جمہوریت منتخب قیادت کے ساتھ معاملات طے کر چکی تھی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے جنرل باجو سے فون کال پر دورے کی کامیابی کیلئے سفارشات مانگی تھیں جس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کردار بھی پاکستان کی پشت پر دورے کی کامیابی میں مرکزی کردار تھا عسکری قیادت نے امریکی سی آئی اے سمیت تمام دفاعی ایجنسیوں سے تسلی بخش کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ برسوں بعد اس عظیم کامیاب دورے میں پاکستانی وزیر خارجہ اور خارجہ امور کے لوگوں کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پی ٹی آئی کے کارکنان کو نظر انداز کرکے عبداللہ ریاڑ سٹیج پر براجمان ہوکر تمام کریڈٹ خود لیتے نظر آئے اور کیپیٹل ون ایرینا میں مال لگانے والے سید جاوید انور قابل تعریف ہے لیکن کاش کارکنان سے عمران خان کی ملاقات ہی کرا دی جاتی جو بنیادی طور پر واشنگٹن میں دورے کا ماحول بنانے والے کارکنان اپنے اپنے شہروں میں سر فخر سے اونچا کرکے کہہ سکتے کہ ان کے وزیراعظم نے اپنے کارکنان کو عزت دی لیکن نوکر شاہی‘ ابن الوقت موسمی چہرے اور سفارتی نوکر شاہی متحد ہوکر ان معماروں کو صرف سکیورٹی گارڈ سے آگے بڑھنے سے روکتی رہی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here