G-7 اجلاس اور دنیا کی درجہ بندی

0
736

1973 کے تیل کے بحران کے زمانے میں ممکنہ مسلم اُمہ کے اتحاد اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے سامنے اقتصادی طور پر مضبوط امریکی سیکرٹری خزانہ جارج شلز نے فرانس ویسٹ، جرمنی اور برطانیہ کے فنانس منسٹرز کی میٹنگ واشنگٹن میں رکھی جہاں امریکی صدر نکلسن نے اپنی دیگر مصروفیات کے باوجود وائٹ ہاﺅس میں واقع لائبریری میں انعقاد کی اجازت دی جسے لائبریری گروپ کا نام دیا گیا جہاں اسی سال ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کو مضبوط کر کے دنیا کے اقتصادی حجم میں مغرب کی ساکھ کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا۔ شروع میں اس گروپ میں امریکہ، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور جاپان پانچ ممبران تھے لیکن 1974ءمیں فرانس کے صدر کے انتقال کے بعد ان کے نائب نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا لہٰذا اس سال تیسرے صدر کا قیام عمل میں آیا وہی جرمنی کے چانسلر برینڈٹ بھی اسکینڈل پر مستعفی ہوئے۔ اسی طرح صدر نکلسن اور جاپان کے وزیراعظم کاکول تانیکا بھی شرم ناک طریقے سے مستعفی ہوئے۔ اسی گروپ کا بقاعدہ اجلاس 1975ءمیں فرانس میں منعقد ہوا۔ 1976ءمیں کینیڈا کو مضبوط اقتصادی ملک کے طور پر شامل کیا گیا 1977ءمیں برطانیہ میں یورپی یونین صدر یورپی کمیشن شریک ہوا۔ 1994ءمیں سوویت یونین اس گروپ کے صدر بورس میلسن 1997ءمیں گروپ ملاقاتوں میں شریک ہوا جسے 1998ءمیں گروپ آف 8 کا نام دیدیا گیا لیکن 2014 میں کریمیا کے انضمام جسے موجودہ 45 ویں اجلاس میں دوبارہ مدعو کیا گیا جبکہ 2014 میں اس میں پانچ مزید کو اقتصادی یونین کے طور پر چین، بھارت، برازیل، میکسیکو اور ساﺅتھ افریقہ کو ممکنہ G-20ءکا نام دیدیا گیا۔ اس تمام مختصر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ پہلے سات ممالک دنیا کی گلوبل نیٹ کے طور پر 58% اور تقریبا 317 ٹریلین ڈالر پر قابض ہیں۔ جبکہ G-20 ممالک کی صف میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، انڈونیشیائ، اٹلی، سعودیہ عربیہ، ساﺅتھ کوریا، ترکی جیسے دنیا کے اہم ممالک اقتصادی GOP کےساتھ نمایاں ہیں، بھارت بھی 2.4 ٹریلین ڈالر کےساتھ اس بڑی اقتصادی سمٹ کا حصہ بن چکا ہے۔ جو دنیا کے موجودہ نظام کو چلا رہے ہیں۔ بین الاقوامی دنیا کا جغرافیہ ختم ہو کر بین الاقوامی اقتصادی ورلڈ بن چکا ہے۔ آج بھارت کی مقبوضہ کشمیر پر زبردستی قابض ہونے کے بعد بین الاقوامی اقتصادی دنیا ماسوائے چین کے خاموش جبکہ ورلڈ میڈیا اپنی رپورٹ میں بھارتی ظلم و جبر اور نسل کشی پر واویلہ مچا رہا ہے۔ کیا ان تمام پہلوﺅں کو دیکھتے ہوئے ہم مڈل پاس تجزیہ نگاروں کو مختلف ٹاک شوز میں بٹھا کر جھوٹ کے سہارے جنگ لڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے چین جیسے ملک نے پاکستان کی قیادت کو ہوش سے کام لینے کو کہا، جذبات اور نعروں سے آج کے برق رفتار زمانے میں صرف سوشل میڈیا پر بیٹھ کر جنگ جیتی جا سکتی ہے، ستاون اسلامی ملکوں میں ماسوائے ایران کے کسی نے اپنے ملک کے ایوان میں کشمیر پر قرارداد منظور نہیں کی، ہمیں تین نسلوں کے پروپیگنڈے کے ذہنی سماجی، معاشی اور خارجی طور پر برباد کر دیا۔ جو ممالک اپنا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمارے لیے کیا کرینگے۔ کشکول اٹھا کر چند سکے مل سکتے ہیں لیکن برابری ہر گز نہیں، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کا مقابلہ جہاں خارجی امور پر مسلسل اس ایشوز کو زندہ رکھا جائے وہی اقتصادی پالیسیاں بنا کر بیرونی سرمایہ کاری کے باعث کھول کر ہی ہم اپنی اہلیت منوا سکتے ہیں۔ وہی کرپٹ حکمرانوں، ملٹری کے جرنلوں کو لگام دے کر نظام مضبوط کر کے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here