مسکراہٹ کا صلہ!!!

0
730
رعنا کوثر
رعنا کوثر

زندگی بھر مسکرانے کی ریاضت کیجئے
چلتے پھرتے آتے جاتے یہ عبادت کیجئے
مسکرا کر دیجئے ہر مسکراہٹ کا جواب
یہ اشعار ہمارے نیویارک کے بہت ہی اچھے شاعر رفیع الدین راز کے ہیں جو انہوں نے حال ہی میں اپنے الوداعی تقریب میں سنائے، کیونکہ وہ نیویارک سے سان فرانسسکو جا رہے ہیں۔رفیع الدین راز کے یہ اشعار بہت خوبصورت ہیں ایک ایسے شخص کی ترجمانی کرتے ہیں جس کے اخلاق اچھے ہیں، میں نے یہ اشعار اس لئے لکھے ہےں کہ یہ میرے آج کے مضمون کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ مسکرانا اور مسکراہٹیں بانٹنا آج کل کے دور میں آسان نہیں رہا۔ مسکرانے کیلئے دل کا صاف ہونا، روح کا ہلکا پھلکا ہونا اور دل کا سکون ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی لئے ایک جاندار اور مصنوعیت سے پاک مسکراہٹ آج کل کی دنیا میں مشکل ہو گئی ہے۔ اتنا آسان سا کام یعنی ہونٹوں کی ہلکی سی جنبش اور ایک مسکراہٹ چہرے پہ آجاتی ہے ایسے میں ہم کیوں کہتے ہیں کہ مسکرانا بھی آج کل مشکل ہو گیا ہے۔ ہم یا تو کسی کو دیکھ کر تکلفاً مسکراتے ہیں کیونکہ تعلقات اچھے رکھنا ضروری ہوتا ہے، یا پھر رسماً مسکراتے ہیں کہ یہ ماحول اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یا پھر مسکراتے ہی نہیں ہیں کیونکہ اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ کیوں بلا وجہ کسی کو دیکھ کر مسکرایا جائے وہ کون سا ہمیں فائدہ پہنچائے گا۔ یہ سوچ کچھ لوگوں پر ایسی حاوی ہوتی ہے کہ وہ جب کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جو کہ ان کو فائدہ پہنچائے گا تو وہ انتہائی خوش اخلاق، خوش مزاج ہو جاتے ہیں، بہت بڑی مسکراہٹ ان کے چہرے پر نمایاں ہوتی ہے، اس کے برعکس اگر وہ اس شخص سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی مدد کا ہی طالب ہو تو وہ فوراً ہی دوسرا رخ اختیار کرتے ہیں، ساری مسکراہٹ غائب، خوش اخلاقی کا پتہ نہیں، اور انتہائی خشک رویہ۔ویسے بھی آج کل دن بھر کی تھکاوٹ اور ذہنی تناﺅ نے لوگوں کے چہرے سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں چاہے امریکہ ہو یا پاکستان، چھوٹے علاقوں کے لوگ جس طرح مسکراہٹ چہرے پر سجائے رہتے ہیں نیویارک، کراچی اور میرا خیال ہے دنیا کے دوسرے ممالک کے بڑے شہر کے عوام اس خوبصورت مسکراہٹ سے عاری ہیں۔ جو دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ جو سچی ہوتی ہے، ایسی مسکراہٹ واقعی ایک عبادت ہے، اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے، اسی لیے نیک نیتی سے جو مسکراہٹ چہرے پر آتی ہے اور جو خلوص سے ہمیشہ مسکراتا رہتا ہے وہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں پاکیزگی جھلکتی ہے اور جو رہنما تکلفاً یا پھر خود غرض طریقے سے مسکراتا ہے اس کی مسکراہٹ بھی بس اُس وقت تک رہتی ہے جب تک ضرورت ہے۔ چاہے ہم کسی بھی ماحول میں ہوں کسی بھی ملک اور شہر میں ہوں، اپنی خلوص بھری مسکراہٹ نہ ختم ہونے دیں۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جسے صدقے کا نام بھی دیا گیا، کسی کو دیکھ کر ریا کاری کے بغیر مسکرائیے اور پھر اس مسکراہٹ کا صلہ پائیے وہ کیسے یہ بھی میں رفیع الدین راز صاحب کے اس شعر پر ختم کروں گی!
خوش دلی کے ساتھ ملیے آدمی سے اور پھر
آنکھ میں بس جائیے دل پر حکومت کیجئے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here