آج معاشرے میں عجب رسم چل نکلی ہے ۔ لینے کی عادت عام ہو گئی ہے جبکہ دینے کو طبیعت نہیں کرتی ہے ۔ جو کسی کا احسان لیتا ہے وہ احسان کرنا نہیں جانتا ۔ جو قرض لیتا ہے وہ یہ سوچ کر لیتا ہے کہ واپس نہیں کرنا ہے ۔ زبان لے کر زبان دینا نہیں جانتے ۔ خون لے کر دینا نہیں جانتے ۔ پیسہ لے کر دینا نہیں چاہتے ہیں ۔ وعدہ لینے کے ماہر دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ صدقہ خور جب اچھے ہو جاتے ہیں تو صدقہ دینا نہیں جانتے ہیں ۔ امانت لینے کے ماہر ، پلٹانے میں صفر ہیں۔ ووٹ لینے والے خدمت نہیں کرتے ہیں ۔ ریسٹورنٹ پر جائیں تو رقم 90فیصد لے کر سروس10فیصد دیتے ہیں ۔وقت لینے والے وقت دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ قلم کسی کو دے دیں توواپس نہیں ملے گا ۔ کتاب دے دیں تو کتاب نہیں ملے گی ۔ رینٹ پر مکان دے دیں تو واپس ملنے کی امید نہ رکھیں ۔ کسی کو اپنی کرسی دے دیں تو واپس نہ ملے گی ۔ کسی کو فیور دے دیں واپسی کی امید نہ رکھیں ۔ کس کو عینک دے دیں توواپس نہیں ملے گی ۔ فون دیں تو رکھ کر بھول جائیں گے ۔ گاڑی کی چابی پکڑا دیں تو آپ کو ٹرپل اے کو کال کرنی ہوگی کہ چابی بنا سکیں ۔ اپنا مکان، اپارٹمنٹ ، دکان یا ڈیرہ کسی کے سپرد کردیں توواپس آنے کا سوچیں بھی نہ ۔ یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایک معظم نے آج مجھ سے کہا میرے پاس کچھ صدقے کی رقم ہے ، میں اپنے بھائی کو دینا چاہتی ہوں ، میں نے پوچھا کیا وہ فقیر ہیں تو کہنے لگی نہیں،تو میں نے کہا پھر کیسے انہیں دی جاسکتی ہے ۔ اب کیونکہ کسی نے انکو دے دیئے ہیں تو واپس کسی عالم یا مستحق کو دینے کی سزاوار نہیں ہے ۔ اسی دوران ایک صاحب کی کال آئی ہم نے ایک مردے کے لیے ڈونیشن کیا تھا ۔ اسے ہم زندہ پر خرچ کرنا چاہتے ہیں ۔ تو میں نے کہا ایسی شریعت کہاں سے لاﺅں جو امریکہ والوں کو لینے کی اجازت دے، دینے کی زحمت نہ دے ۔ ہم اللہ سے صحت لیتے ہیں ، اولاد لیتے ہیں، روزگار لیتے ہیں، نصیب لیتے ہیں، حفاظت لیتے ہیں ، سلامتی لیتے ہیں ، ازدواجی زندگی کی نعمت لیتے ہیں ، عزت لیتے ہیں۔ وقار لیتے ہیں ، مگر اسے زکوٰة دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نبی سے ہم سند اسلام لیتے ہیں ۔ شفاعت کے امیدوار ہیں ۔ انکے وسیلے سے سب کچھ خدا سے لیتے ہیں مگر انکی اولاد کو دینے درود و سلام دینے کو تیار نہیں ۔ ماں ، باپ ہمیں سب کچھ دیتے ہیں ، ہم جوان ہوکر انکو وقت تک نہیں دے سکتے ۔ ہم اپنی چاند جیسی اولاد کو وقت نہیں دے سکتے ۔ ہم اللہ سے لیے ہوئے مال میں سے صلہ رحمی کرکے اپنے غریب رشتہ داروں پر خرچ نہیں کرسکتے ۔ ہم حج پر جائیں یا زیارت پر ہمارے پاس رمضان آئے یا محرم، ہمارے پاس غلام آئے یا امام ہم دینے کو کچھ تیار نہیں اسی لیے نظام خراب ہو رہا ہے ۔ اللہ ہمارے بھائی بہنوں کو اس قابل کرے کہ سب کچھ ہڑپ نہ کریں بلکہ حقوق اللہ اور حقوق الناس ادا کریں ۔ یتیموں، مسکینو ںکامال ہڑپ نہ کریں ۔ آمین
وہ کون لوگ ہونگے جو رسول اللہ کو صادق اور امین مانتے تھے ۔ اور رسول اللہ