امریکہ میں بے شمار اچھی روامیات ہیں‘ بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں اپنے امریکن نژاد پاکستانی بچوں کو کم از کم گرمیوں کی چھٹیوں میں کہیں نہ کہیں لے کر جانے کا بجٹ بنانا پڑتا ہے اگرچہ اس دفعہ کفایت شعاری کیلئے وفاقی مشیر حفیظ شیخ کی مدد بھی لینی پڑی جس نے واٹس اپ پر ہمیں پاکستانی روپوں میں گوشارہ بنا کر بھیج دیا ہے۔ پچھلے دو سال سے بچے اورلینڈو فلوریڈا کے ڈیزی لینڈ کے چکر میں اور ہم اپنے ہوشربا بلوں کے چکر میں لہٰذا اس سال ہم نے گزشتہ جون سے ہی گھر پر امریکن جھنڈے‘ ترانے اور تاریخ پر گفتگو شروع کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان بچوں کو اپنے اصل ملک امریکہ کی راجدھانی جانے کا نیشنل ازم جوش مار گیا۔ بچوں کے معاملے میں ”ہم دو ہمارے دو“ کے خالق کا تو علم نہیں لیکن ہمارے گھر کی دوسری لڑکی ایڈیسن بسمہ اور آخری بینڈ ماسٹر عمران کے ساتھ کبھی بھی سفر پاکستانی سوچ کے مطابق نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیشہ کی طرح نئے ماڈل کی دیوہیکل آٹھ سیٹوں والی SUV کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی سے 15 منٹ کی دوری پر واقع ریاست ورجینیا کے شہر سپرنگ فیلڈ میں کئی ستاروں والے ہوٹل ہولڈان ہماری پہلی منزل ٹھہری۔ جمعہ کی شام مغرب سے قبل انٹراسٹ ہائی وے 395 کو کراس کرتے ہوئے بادشاہ سلامت ڈونلڈ ٹرمپ ک حضور قدم بوسی بھی ہوئی۔ اپنے سیدھے ہاتھ پر پینٹاگون کا سائن بورڈ دیکھ کر فوراً جمہوریت کی بقناءکیلئے ایگزٹ لے کر نیچے اتر گئے۔ نیچے اتر کر چوکور بنی بلڈنگ کا باریک بینی سے مشاہدہ شروع کیا ہی تھا کہ اپنے دوست ڈاکٹر محمد شفیق نظروں کے سامنے آگئے۔ ہم نے قصداً گاڑی روک کر اس عظیم الشان بلڈنگ کو رشک سے دیکھنا ہی شروع کیا تھا کہ کچھ گھنٹے پہلے جنرل باجوہ کی آمد پر استقبالیہ 21 توپوں کی سلامتی سے نکلنے والے گولوں کی جمہوری خوشبو ہمارے ناک تک پڑی ہی تھی۔ ڈاکٹر شفیق کا جملہ جمہوریت خطرے میں یاد آگیا۔ میری اس گم سم حالت کو دیکھ کر گھر کی خاتون اول نے کہاں سے نکلنے کی ہری جھنڈی دکھا دی لیکن آج چونکہ امریکن بچے ساتھ تھے تو ہمت کرکے راستہ بھول بھٹک جانے کے بہانے ایک فوجی وردی میں ملبوس شخص سے رہنمائی مانگی تو اس نے اسے سویلین میٹر قرار دے کر سویلین کے حوالے کردیا۔ ابھی ہم فوجی دخل اندازی نہ کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک پاک امریکن وکلاءمحاذ کے صدر رانا رمضان ایڈووکیٹ راجپوتانہ کے ساتھ اپنی لال رنگ کی گاڑی میں مخالف سمت میں عدالت کی عالیہ اور عظمیٰ کی تلاش میں خود بھی غلط آرہے تھے یا ہماری طرح بھٹکے ہوئے تھے۔ غلط یوٹرن لے کر دوبارہ ہالی ڈے پر چڑھ کر گھر کی جمہوریت بچا لی۔ بلڈنگ کے قریب آ کر تیسری دڈنیا میں اقتدار کی امید ہوچلی تھی لیکن گھر کی عظمیٰ و عالیہ کے ڈر سے کہ ہمارا پروٹیکشن آرڈر کینسل نہ کردے ہم نے سپرنگ فیلڈ کی راہ لی۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر رات کی یٹ پوجا کی تلاش میں گوگل کی مدد سے آدھے میل پر واقع ڈیرہ کڑاہی کباب اور مہران ریسٹورنٹ تک پہلے تو ریستوران 11 بجے بند کی پابندی کی پاسداری کرتے ہوئے Do Not Distrub کا بورڈ آویزاں کئے ہوئے تھے۔ پردیسی کھانے‘ کباب نے کچھ امید کی آشا TOGO کی شرط پر روشن کردی لیکن آج بچوں کی چھٹیوں میں جہاں ہم جمہوریت‘ آمریت کے ساتھ صحافت سے بھی خود ساختہ جلاوطنی کا سوچ کر نیویارک سے تڑی پار ہوئے تھے وہی صحافت اسی کباب کے باہر اصفر امام اور دنیا نیوز کے واشنگٹن کے بیورو چیف محمد یوسف اور کیمرہ مین عظیم کی صورت میں ہمارے سامنے کھڑ ہمارا منہ چڑھا رہی تھی۔ مجبوراً حالات حاضرہ ملکی معاملات‘ عمران خان کا اتوار کو ہونے والا جلسہ اور صحافت پر موجودہ قدغن پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔ دوپہر سے محو سفر امریکن بچے اور پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد سے قبول قبول قبول کے تبادلے و ارتکاب جرم کی قانونی بیگم کے بھی تھکن سے اوسطان خطا زمین بوس ہوکر غنودگی نے ہمیں روایتی رایت کی آوارہ گردی کی عادت میں آکسیجن فراہم کی۔ اس شعر کی مانند
مریض عشق ہے تو‘ دوائے دل سمجھ دل بر کو
پھر مرض جانے‘ دوا جانے‘ شفا جانے‘ خدا جانے
انہی سوچوں سے چور اندر کا لکھاری جمہوری کا قیدی بن کر دوبارہ مغلانی کباب ہاﺅس پہنچا تو میرے واشنگٹن کے صحافیوں کی تنظیم پاپا کے جاگتے رہو صحافی شاید اپنی اپنی بیگمات کے لوکیشن ٹریک کے خوف سے گھر جا چکے تھے لیکن طبیعت آج دنیا کی راجدھدانی میں پکار پکار کے جمہوریت کے نغمیں تصور میں سنا سنا کر اکیلے ہی رات کے پہر گاڑی کو ایکسی لیٹر مار کر واشنگٹن ڈی سی لے گئی۔ پنسلوانیا ایونیو کی دونوں مخالف سمتوں میں پہلے کیپیٹل ہل کی پرشکوہ بلڈنگ جہاں دنیا بھر میں اپنے پاس کردہ قراردادوں پر اشک بار تھی وہیں نیچے سیڑھیوں پر سردار نصراللہ‘ وکیل انصاری اور جمال محسن پاکستانی حالات پر ٹاک شو کرتے ہوئے عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات پر سوتے واشنگٹن کو جگاتے ہوئے نظر آئے۔ ہم نے اپنی سلامتی کو مقدم جانتے ہوئے سیدھی 1500 پنسلوانیا ایونیو کی راہ لی کہ ہر دل عزیز تاریخی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی چاندی سے رنگ بکھیرے وائٹ ہاﺅس میں پیر کی صبح عمران ٹرمپ ملاقات کا ازخود سوموٹر نوٹس لے کر پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے متوقع دھرنے کی جگہ کا جائزہ لیا جائے تو ایک لال کیپ پہنے انسانی حقوق کے بینر پر دھرنا بردار شخص رات تین بجے انسانی حقوق کی قرارداد ٹرمپ کے محافظ دربان کو دیتا نظر آیا۔ نیویارک کے دیوہیکل اشخاص کے 24 گھنٹے کے اندر واشنگٹن میں مولانا پوپولائی کے چاند کی طرح شفیق الرحمن کی یاد دلا دی جو ابھی الٹے پاﺅں یوٹرن لے کر گاڑی Constitiution ایونیو کی طرف موڑ ہی کاٹ رہا تھا کہ رانا رمضان‘ ایاز صدیقی‘ خالد اعظم اور شاہد مہر کے امریکی دستور شمس الزماں کے ہاتھ میں لئے دوسری مرتبہ پاکستانی عظمیٰ اور عالیہ کو ڈھونڈتے ملے۔ انہی سوچوں میں گم ہی تھے کہ کیپٹل ون ایرینا کی ریڈ لائٹ پر پہنچا تو شہر خاموشاں کے اس کارنر پر جمہوریت کے دیپ جلائے ڈاکٹر شفیق الوداع کے دن عمران خان کی آمد سے پہلے جنرل باجوہ اور میجر جنرل آصف غفور اور آئی ایس آئی کے فیض حمید کے خودکش فوجی حملے کو روکنے کیلئے جمہوری ایئرکنڈیشن میں جمہوری پنکھا گھماتے رہے۔ آج رات کے ان تمام معجزوں کی تاب نہ لاتے ہوئے تیزی سے دنیا کی راجدھانی سے اور کرداروں سے جب ہم کیپٹل ہل کی طرف دوبارہ انٹرسٹیٹ ہائی وے لینے کیلئے پہنچے تو متحدہ مجلس عمل کا دھرنا مولانا فضل الرحمن کے اقتدار دیکھ کر حیران رہ گئے۔ واقعی پاکستان کے اقتدار اعلیٰ بمعہ تحفظ اسلام کی تمام نرسریاں پندرہ سو پنسلوانیا ایونیو سے ہی گزرتی ہیں۔ انہی سوچوں میں دوبارہ صبح پانچ بجے ہوٹل پہنچے اور نیویارک کے ان تمام کرداروں کو واشنگٹن میں جمہوریت‘ آمریت اور دستور بچانے کی تحریکیں ہمیں صدر امریککہ کے بے تاج بادشاہ کی تمام نشانیاں فراہم کرگئیں۔ ابھی ان خیالات کے نیند کی گلیاں میں گئے ہی تھے کہ ایڈیسن بسمہ ملک نے صبح چھ بجے ہوٹل میں انٹرکانٹی نینٹل بریک فاسٹ کیلئے اٹھا دیا۔ واقعی امریکن بچے وقت کی قدر جانتے ہیں۔ یہ الارم ہم نے خود اپنی مصیبت کیلئے صبح لگوایا تھ لہٰذا ناشتہ کے بعد برصغیر کے ممتاز دانشور اور خالصتان انٹرنیشنل افیئر کے پردذآن ڈاکٹر امرجیت سنگھ کی وکیل بیٹی آنند کراج شادی پر سکھ فاﺅنڈیشن آف ورجینیا گوردوارہ صاحب پہنچے کہ وسیع پارکنگ لاٹ میں ہمسائی گاڑی سے ہمت جرات غیرت والا ماﺅں بہنوں کا رکھوالا‘ سیر ہمارا شیر شیر ہمارا کا ورد تیز آواز میں ہمارے حوصلوں کو پستہ کرنے لگا کہ پنجابیوں کی شادی میں راجہ رزاق گاڑی پر بینروں سمیت یہ ترانہ لگئے ہوئے تھے جہاں اسلام آباد ڈی چوک کے کنٹینر کا ماحول رنگ برنگ پگڑیاں پہنے سکھوں کو گرمی میں شیر شیر کا حوصلہ دینے لگا کیونکہ سنگھ کا مطلب ان کی زبان میں شیر ہی ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہمیں رمضان رانا‘ ڈاکٹر شفیق‘ ایم کیو ایم کے رﺅف صدیقی شادی کے استقبالیہ گیٹ پر جمہوریت بچاتے ملے۔ ہم نے اپنی پتنی روبی کور بمعہ بچوں شادی منڈپ میں چھپ کر جمہوریت بچا لیں۔ بچوں کو گرمی کی چھٹیوں پر واشنگٹن ورجینیا نکلے تھے لیکن پاکستان میں دستور اور جمہوریت کے رکھوالے واشنگٹن میں بھی حساس اداروں کی طرح ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ باقی کے دو دن کیسے گزرے یہ ہم جانے یا خدا جانے۔
٭٭٭