مجیب الرحمن شامی صاحب ایف سی کالج لاہور میں میرے اردو کے استاد رہے ہیں۔ ان کے ساتھ احمد عقیل روبی جن کا ایک شعر ابھی تک میرے حافظے میں ہے۔ وہ ایک شخص جو دور سے دریا دکھائی دیتا ہے قریب جائیں تو پیاسا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے ساتھ مشہور ڈرامہ نگار ناصر بلوچ بھی دست شفقت رکھتے تھے۔ شامی صاحب کا پڑھانے کا سٹائل میں ابھی تک فالو کرتا ہوں۔ ان کا کہناتھا کہ بکس اور نوٹ بکس بند کر دیں اور صرف مجھے سنیں اور گھر جا کر بھی پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اگر تم لوگ غور سے میرا لیکچر سن لو اور حاضریاں پوری رکھو تو میں تمہیں فرسٹ ڈویژن کی گارنٹی دیتا ہوں۔ شامی صاحب اپنے ویسپا پر آتے تھے اور ایک آدھ بار ان کے ویسپا کی سواری کا لطف بھی اٹھایا۔ اب فرق ملاحظہ فرمائیں کہ ایک ویسپا پر آنے والے پروفیسر حکومتی بھائی چارے میں کہاں سے کہاں نکل گئے۔ عطاالحق قاسمی صاحب وزیر آباد سے چلتے ہوئے وزیر اعظم کے ماتھے کا جھومر بنے۔ ریحام خان کی کتاب لکھنے میں معاونت سے لیکر نواز شریف کی ہر غمی خوشی میں شریک رہے۔ نذیر ناجی مشرف کے ہونے سے پہلے جنرل ضیاءالدین کی سپیچ کی نوک پلک سنوارتے ہوئے پکڑے گئے۔ عرفان صدیقی نے ایف جی سر سید کالج راولپنڈی میں اٹھارہ سال اردو پڑھائی۔ کچھ عرصہ باہر تدریس سے وابستہ رہے اور پھر سیاسی کالم نگاری شروع کردی۔ صدر رفیق تارڑ کے پریس سیکرٹری اور پھر نواز شریف کے مشیر خاص اور سپیچ رائٹر بنے۔ اب اندازہ کریں کہ نواز شریف کے تقریباً تمام اچھے و برے بولے گئے کلمات کے اصل ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ سوائے نذیر ناجی کے یہ تمام حضرات استاد محترم ہیں۔ بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھی لیکن جونیئر اساتذہ کی بھرتی میں بھی نون لیگ کی گورنمنٹ کسی سے پیچھے نہیں۔ چن چن کے استاد محترم بھرتی کئے گئے جن کو الیکشن ڈیوٹی پر تعینات کر دیا جاتا جو الیکشن میں دھاندلی کا باعث بنتے۔ سیسلین مافیا نے کس کس طبقے کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا۔ اب ضروت اس امر کی ہے کہ محکمہ تعلیم کو وائٹ واش کیا جائے۔ اساتذہ کرام کو بہتر پے سکیل کے ساتھ مراعات دی جائیں۔ ان کو ریفریشر کورسز کرائے جائیں اور ان کے امتحانات لئے جائیں۔ پاس نہ ہونے والوں کو فارغ یا ڈیموٹ کر دیا جائے۔ تعلیم کا ایک سٹینڈرڈ ہونا چاہئے۔ گھوسٹ سکولوں کا خاتمہ پوزیشن ہولڈرز کو لیکچرشپ کی ترغیب و ملازمت ملنی چاہئے۔ باسٹھ فیصد خواندگی کی شرح جس میں مرد بہتر فیصد اور عورتیں اکیاون فیصدٹوٹل انرولمنٹ نو کروڑ جن میں سے تین کروڑ پرائمری اٹھائیس لاکھ سیکنڈری اور دو لاکھ پوسٹ سیکنڈری تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور ٹیچر سٹوڈنٹ تناسب ایک اورسینتالیس ہے۔ کم از کم ایک کروڑ اساتذہ کی اور گنجائش موجود ہے اگر خواندگی کو 100 فیصد تک لے جانا ہے تو اندازہ کریں کتنے اور اساتذہ اور سٹوڈنٹس درکار ہوں گے اور کتنا بجٹ مختص کرنا پڑے گااب جبکہ پچیس لاکھ دینی مداس کے بچوں کو بھی ریگولرائز کرنا ہے۔ کم از کم ایک جنریشن کو تو پڑھا دو ، تاکہ شعور آئے اور شعور صرف اچھے استاد ہی لا سکتے ہیں‘ استاد محترم نہیں۔
٭٭٭