پاک فوج کے شہیدوں کو سلام!!!

0
649
سردار محمد نصراللہ

قارئین کرام! بشمول آپ سب کے اور تمام پاکستانیوں نے وطن کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر ہمارے امن اور سکون کے لئے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ میرا دل کل سارا دن بوجھل رہا ہے کہ ہم کیا قوم ہیں کہ جو وردی ہماری سرحدوں اور سلامتی کیلئے اپنی جوانیاں قربان کررہی ہے ہم میں چھپے اور گھسے کلبھوشن جو نہ صرف پاکستان کے طول و عرض میں بلکہ امریکہ جہاں ہم آباد ہیں مختلف لبادورں میں چھپے کبھی انسانی حقوق‘ کبھی وکلاءکا کالا کوٹ پہن کر ایکسپلائٹ کرکے اور را بھارت کی ایجنسی کے پراکسی بن کر ہماری اس دوردی کی توہین کرتے رہتے ہیں لیکن پاک فوج کے یہ جوان اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے ہمارے ملک کو ان ڈراﺅنے لوگوں سے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ آئیے ہاتھ اٹھائیں اور ان شہداءکیلئے اللہ رب العزت سے ان کے بلند درجات کیلئے دعا کریں۔ شہید کا مقام تو جنت ہی ہے اور ان کے اہل خانہ کو صبر و جمل کی دعا کریں۔ پاک فوج کا ایک ایک سپاہی پاکستان کا انمول ہیرا ہے۔ ان کی جرات اور جذبہ ان کلبھوشنوں کے سامنے ڈھال ہے۔ ”پاک فوج زندہ باد‘ زندہ باد‘ زندہ باد“۔قارئین وطن! 25 جولائی بھی گزر گیا۔ تمام ملک نے عمران کی حکومت کے خلاف مچھلی بازار گرم کیا۔ مہنگائی اور غریبوں کا رونا رو کر سیاسی شیروانی میں چھپے مافیا کے سربراہ قوم کو لوٹنے والے ناجائز دولت کے بیرون ملک اپنی اور بچوں کی تجوریاں بھرنے والے نواز شریف کی رہائی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ یہ تھا 25 جولائی کا دھرنا اور آج جب میں یہ کالم درج کررہا ہوں پانامہ کیس کو پورے دو سال ہوگئے ہیں۔ خدا کی قسم اگر یہ شخص ماﺅزے تنگ کے زمانے میں چین میں ہوتا تو اس نے اس کو اب تک شوگر کے ٹیکے لگوا کر مروا دیتا۔ اس کا ایمان تھا کہ قوم کو لوٹنے والے کا چین کی سرزمین پر زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور یہاں جیل میں اس کو پرل کانٹینینٹل کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں جو کہ آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جبکہ آئین کی نظر میں سب برابر ہیں۔ خواہ وہ پرائم منسٹر ہو یا عام آدمی۔ میری نظر میں عمران خان کی حکومت نے جیل مینوئیل کے برخلاف جو سہولتیں فراہم کی ہیں وہ این آر او ہے۔ عمران خان جیل مینوئیل تم سے تقاضہ کرتا ہے کہ نواز شریف کو فوراً مچھ جیل میں ٹرانسفر کیا جائے اور اس کو جیل مشقتی پنجابی بولنے والا نہیں بلکہ پشتو بولنے والا دیا جائے جو اس کی بات نہ سمجھ پائے اور وہ اس کی بات نہ سمجھ سکے اور یہ واقعہ شورش کاشمیری کے ساتھ 1966ءمیں ایوبی جیل میں پیش آیا اگر پنجاب حکومت نے یہ قدم اٹھا لیا تو یہ سمجھ لیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ حکومت کرسکے گی ورنہ مریم صفدر یونہی حکومت کو تنگ کرتی رہے گی۔قارئین وطن! آجکل فیس بک‘ میسنجر‘ ٹویٹر اور سوشل میڈیا کی فیلڈ میں تیز رفتاری سے سفر کررہے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ جب تک سوشل میڈیا نے رواج نہیں پکڑا تھا۔ پاکستان اور امریکہ میں بڑے ٹی وی والوں کے لچھن ہی کچھ اور ہوتے تھے۔ انہوں نے ہر چھابڑی والے کو جو ان کی جیبوں میں گرم گرم ریوڑیاں بھرتے تھے۔ ایک رات میں ہیرو بنا کر پیش کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بڑے ٹی وی کے اینکر آجکل بول میں بول رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ ایک مقامی ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک نو پیسیہ قریب آ کر بیٹھ گیا۔ مسٹر بول نے فوراً اپنا کیمرہ نکالا۔ اس وقت یہ صاحب جیو کیلئے کام کرتے تھے۔ اس نو پیسیہ کا عید پیغام ریکارڈ کرنا شروع کردیا بلکہ اس کو پپیغام لکھ کر بھی دیا جس کو وہ نواز شریف کی طرح پرچی پر لکھنے کے باوجود ڈیلیور نہ کرسکا۔ 15 ٹیک کے بعد وہ ریکارڈ کروانے میں اپنا پیغام کامیاب ہوا لیکن موصوف یہ جانتے ہوئے کہ میں ایک پولیٹیکل ورکر ہوں اور وطن اور امریکہ دووں جگہ سیاسی خدمات انجام دیتا ہوں لیکن اس نے درگزر کیا اور یکایک سوشل میڈیا نے منظر بدل دیا ہے کہ اب ہر ہاتھ میں کیمرہ ہے اور ہر کوئی گرج اور برس رہا ہے اور بڑے چینلوں کی دکانداری ختم ہوتی جارہی ہے کہ وہ بڑے اینکر خودڈ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں لیکن اس سوشل میڈیا نے جہاں اتنی ترقی کی ہے وہاں وہ بہت منہ زور بھی ہوگیا ہے۔ نیویارک میں کچھ شوخ اور ہمارے سماجی رہنماﺅں کے ہاتھوں سے تراشے ہوئے پتھر کے صنم سوشل میڈیا کے خدا بنے بیٹھے ہیں۔ توقیر الحق اور مرزا بیگ جنہوں نے نہ جانے کس جنوں میں میرے استاد محترم عظیم ایم میاں کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کی ہے۔ میں یہاں ان حضرات سے صرف اتنا کہوں گا کہ بے باکی اچھی چیز ہے مگر اتنی بھی اچھی نہیں کہ آپ اپنے بزرگوں کا احترام ہی بھول جائیں۔ عظیم ایم میاں میرے اور اس شہر کے بزرگ ہیں۔ ان کی عزت و احترام خواہ وہ کوئی بھی نظریہ رکھتے ہوئے‘ ہم سب کا فرض ہے۔ میاں عظیم کی اپنی کمیونٹی کیلئے بہت سی خدمات ہیں۔ اب آپ دیکھ لیں کہ وائٹ ہاﺅس میں عمران ٹرمپ ملاقات پر کشمیر کا جو باﺅنسر کروایا وہ انہی کا کارنامہ ہے کہ وائٹ ہاﺅس سے نکل کر پورے ہندوستان میں ہلچل مچ گئی۔ وائٹ ہاﺅس میں اس دن درجنوں صحافی تھے لیکن ٹو دی پوائنٹ میاں عظیم ہی کا کارنامہ ہے۔ توقیر میرے دوست آپ سے گزارش ہے کہ احتیاط سے کام لیں۔ جذبات میں نئے نئے شوق ہوش بھی اڑا دیتے ہیں اور چین بھی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here