حکیم الامت‘ شاعر مشرق‘ علامہ محمد اقبال کا شعر ہے!
نگہ بلند‘ سخن لنواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کیلئے
یہ شعر عموماً ہر اس شخصیت کیلئے پڑھا جاتا ہے جس نے اپنے متعلقہ شعبہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں‘ مثالی قیادت کی ہو یا کامیابی کیلئے عظیم جدوجہد کی ہو‘ ہمارے معاشرے میں تو اس شعر کا استعمال اظہار سپاس و وفاداری کیلئے ماتحت اپنے باس کو مکھن لگانے کیلئے بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور سماجی شعبہ میں اس شعر کا استعمال بلکہ استحصال اس قدر کیا گیا ہے کہ یہ شعر اپنی افادیت و معانی کی اہمیت کھو ہی چکا ہے۔ ہر دور میں ہر سیاسی رہنما کیلئے وقت کے حکمران کیلئے شعر منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ خواہ اس رہنما کے حوالے سے اس کے کام اور اقدامات اس شعر کی حقیقت سے برعکس ہی کیوں نہ ہوں۔ اس شعر کی سچی عکاسی کرنے والی عظیم شخصیات محض انگلیوں پر ہی گنی جاسکتی ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کی عظیم شخصیت کے بعد اگر اس حوالے سے سیاسی قائدین کا شمار کیا جائے تو دو یا تین شخصیات کی نظیریں ہی ایسی نظر آتی ہیں جو اس اعزاز کی حقدار بنتی ہیں جن کے کریڈٹ پر پاکستان اور عوام پاکستان کی خدمات‘ عالمی منظر نامے میں وقار‘ اعتماد اور قومی مفاد کے مظاہر و اقدامات ہی نظر آتے ہیں۔
ہماری اس تمہید کا محرک پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ امریکہ بنا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کا امریکہ کا دورہ کرنا کوئی انہونی یا نئی بات نہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید لیاقت علی خان سے لے کر نواز شریف تک متعدد وزرائے اعظم‘ گورنر جنرل اور صدور امریکی دورے کر چکے ہیں۔ بعض حکمرانوں نے دو‘ تین یا اس سے زیادہ دورے بھی کئے ہیں۔ ان کے امریکی حکمرانوں‘ اشرافیہ اور پاکستانی کمیونٹی سے رابطے بھی ہوئے ہیں‘ پرجوش استقبال بھی ہوئے ہیں لیکن میر کارواں کی مثال سابق صدر ایوب خان کے بعد اگر قائم ہوئی ہے تو وہ عمران خان پر صادق آتی ہے۔ ہم عمران خان کی گزشتہ ایک سال کی پالیسیوں اور اقدامات پر خواہ کتنی بھی تنقید کریں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ خارجی امور پر عمران خان کی حکومت نے متعدد دشواریوں اور مشکلات کے باوجود اہم سیاسی و معاشی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہم اپنے گزشتہ کالموں میں اس امر کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ امریکہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ یہ ریاستی دورہ (State Visit) نہیں تھا بلکہ Official Visit تھا لیکن اس دورے میں نہ صرف بہت بڑی ڈپلومیٹک کامیابیوں کا آغاز و امکان نظر آیا ہے بلکہ دیار غیر میں عمران خان کی مقبولیت کا زبردست اظہار بھی سامنے آیا ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی غماز ہے کہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت صرف پاکستانیوں میں ہی نہیں دیگر اقوام کے افراد میں بھی مقبولیت کی انتہا پر ہے۔ کپتان وزیراعظم جب امریکہ پہنچے تو انہوں نے نہ صرف امریکن پاکستانی کاروباری و تجارتی کمیونٹی سے سرمایہ کانفرنس کی بلکہ آئی ایم ایف کے موجودہ مینیجنگ ڈائریکٹر‘ امریکی سرمایہ کاروں اور سیاسی اشرافیہ سے ملاقاتیں کیں۔ 21 جولائی کو واشنگٹن میں کیپٹیل ایرینا میں عمران خان کا جلسہ امریکہ میں کسی بھی پاکستانی رہنما کے پاکستانیوں سے خطاب کی نئی تاریخ رقم کرگیا۔ 20 ہزار افراد کی نشستوں کے حامل اس ایرینا میں امریکہ بھر سے نیز کینیڈا سے بھی بیرون ملک پاکستانی اپنے محبوب قائد کے خطاب سننے کیلئے آئے۔ گراﺅنڈ سمیت کہیں بھی تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ ایرینا سے باہر بھی نہ صرف پاکستانی بلکہ امریکی اور دیگر اقوام کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق شرکاءکی تعداد 25 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی تھی۔ یہ کرکٹر اور سیاستدان و وزیراعظم عمران خان کی انتہائی مقبولیت کی زبردست گواہی تھی۔ اپنے نصف گھنٹے سے بھی زائد عرصہ کے خطاب میں جہاں ملکی حالات‘ سابق حکمرانوں کی لوٹ مار‘ اپنی حکومت کے اہداف کا ذکر کیا وہیں انہوں نے واضح کیا کہ جمہوریت کی اساس میرٹ ہوتی ہے جبکہ بادشاہت میں موروثیت ہوتی ہے اور پاکستان میں جمہوریت کے نام پر موروثیت پر عمل کرکے ملک کو کرپشن‘ لوٹ مار اور معاشی بدحالی کو پہنچا دیا۔ انہوں نے بین السطور امریکی انتظامیہ کو بھی یہ پیغام دیا کہ اب کسی بھی بدعنوان کیلئے کسی کے بھی کہنے پر این آر او کی کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ واضح رہے کہ ماضی میں حکمرانوں اور سیاسی رہنماﺅں کو امریکہ بہادر کے ایماءپر عرب ملکوں کے توسط سے معافی و این آر او کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ کپتان نے پاکستان کے معاشی حالات کے بہتر بنانے کیلئے بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے‘ اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے ساتھ وہ دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کے پارلیمان میں حصہ لینے کے حق کیلئے بھی قانون لائیں گے۔ عمران نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ صدر ٹرمپ سے ملاقات میں پاکستان کا پراعتماد و خود دار مو¿قف اختیار کریں گے اور ملک و پاکستانیوں کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کا یہ خطاب امریکی ایجنسیز کے توسط سے امریکی انتظامیہ و صدر تک بھی پہنچا ہے جس سے صدر امریکہ سے عمران خان کی ملاقات کے حوالے سے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ عمران خان کے 23 سال سے افغانستان میں مذاکرات سے امن کے قیام کا استدلال بھی آئندہ ملاقات میں مثبت رویہ کا باعث بنا۔
22 جولائی کو عمران خان کی وائٹ ہاﺅس آمد پر صدر ٹرمپ کے کپتان کی آمد پر استقبال پر باڈی لینگویج‘ ون ٹو ون ملاقات اور میڈیا سے مثبت گفتگو اس بات کی مظہر تھی کہ کپتان وزیراعظم کا اپنا مقدمہ خودداری و اعتماد سے پیش کرنے کا پیغام پہنچ گیا ہے۔ جبھی تو صدر ٹرمپ نے پاکستان کی ماضی میں 1.3 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان بھی کیا اور پاکستان سے ٹریڈ میں 20 گنا اضافہ کا عندیہ بھی دیا۔ یہی نہیں بعض مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے سکرپٹ سے ہٹ کر مودی سے اپنی گفتگو کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا بھی اظہار کیا اور عمران خان کے اس موقف کی تائید کی کہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب عوام کے امن و سکون اور خطہ کے امن و خوشحالی کیلئے کشمیر کا تصفیہ ضروری ہے۔ بنیادی طور پر افغانستان میں قیام امن اور مذاکرات سے مسئلہ کے حل کیلئے ہونے والی اس ملاقات میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاکستان کی کوششوں سے دس لاکھ افراد کی جانوں کا تحفظ ہوگا۔
بعض مبصرین و تجزیہ کاروں کی نظر میں امریکہ چونکہ افغان تنازعہ سے نکلنا چاہتا ہے اور 2020ءکے انتخابات سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس حوالے سے اعلان کو عملی شکل دینا چاہتا ہے‘ اس لئے پاکستان اور وزیراعظم پر عنایت کا اظہار بالکل اسی طرح کیا جارہا ہے جس طرح 9/11 کے بعد عنایات و امداد کی برسات کی گئی تھی۔ اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اس وقت کے حکمران نے دھونس‘ دباﺅ میں آ کر عنایتیں سمیٹیں جبکہ عمران نے پاکستان کی خودداری اور اعتماد کا مقدمہ پیش کرکے امریکی انتظامیہ و صدر کی حمایت حاصل کی ہے۔ سوا تین گھنٹے کی ملاقات معمول کی بات نہیں ہوتی ہے۔ یقینا اس امر میں بیک ڈور سٹرٹیجی و چینل خصوصاً ہمارے آرمی چیف و دیگر کا بڑا دخل ہے لیکن عمران کی شدید عوامی مقبولیت اور عزم کا بھی بڑا دخل ہے اور ایسے ہی قائدین قوم کے میر کارواں ہوتے ہیں۔ سو عمران کیلئے ہمارا مطمع نظر یہی ہے
نگہ بلند‘ سخن لنواز‘ جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کیلئے
٭٭٭