جی ایچ کیو کا قومی بیانیہ!!!

0
963

خالد ایچ لودھی
یوم دفاع پاکستان کی مرکزی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کا موقف پیش کیا ہے۔ درحقیقت یہ کام ہماری سول حکومت کو کرنا چاہئے تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ہو یا ”برکس“ اعلامیہ‘ اس پر ہماری ایٹمی مملکت کی قیادت کو فوری طور پر زوردار جواب دے کر اپنی خودمختاری اور آزاد مملکت ہونے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ پاکستان بلاشبہ جنوبی ایشیاءخطے میں انتہائی اہم اہمیت کا حامل ملک ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ناکام ہوتا ہے تو پھر پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں خطے میں امن کے امکانات میں پاکستان کے مددگار کردار کا ذکر بھی کیا ہے۔ امریکہ اور برکس ممالک کے بعض اعتراضات کا جواب بڑے مناسب الفاظ میں دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کی روشن مثال قائم کر کے دکھائی ہے۔ اس جنگ میں افواج پاکستان کے افسروں اور جوانوں کے علاوہ عام شہریوں نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان سے بار بار ڈومور کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اب دنیا کی باری ہے کہ وہ ڈومور کرے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو افغان جنگ میں استعمال کیا اور پھر اس جنگ میں جلنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔ ماضی میں پاکستان کو امریکہ نے گریٹ گیم کے مہرے کے طور پر خوب استعمال کیا اور پاکستان کی کمزوریوں کا بھی بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پاکستان کو امریکہ نے ریلوے کے انجنوں کا بھی تحفہ دیا جو پاک امریکہ دوستی کے نام سے ایک طویل عرصے تک جانے جاتے تھے‘ اسی طرح گندم بھی دی جاتی رہی اور پھر سیٹو اور ناٹو کا رکن بھی بنایا۔ بعد میں پاکستان کے ذریعے چین کے ساتھ اپنے روابط کا آغاز کیا۔ سوویت یونین کو تباہ و برباد کرنے میں امریکہ نے پاکستان ہی کا راستہ اختیار کیا یعنی پاکستان کے تعاون سے سوویت فوجوں کو سرزمین افغانستان سے مار بھگایا گیا جس کے نتیجے میں سوویت یونین آخرکار چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر اپنا وجود کھو بیٹھا۔
سوویت یونین تو ٹوٹ گیا‘ امریکہ دنیا کی سپر پاور بن گیا۔ اس نے اپنے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کے تمام مقاصد بھی حاصل کرلئے اور پھر دیگر ممالک جن میں عرب ممالک کے تیل پر امریکی اجارہ داری نے اپنا تسلط قائم کرلیا۔ عراق‘ شام اور پھر لیبیا کا حشر پوری دنیا کے سامنے ہے۔ سعودی عرب تو ویسے بھی امریکی جیب میں ہے۔ اسی طرح کی صورتحال کویت‘ اومان‘ قطر اور بحرین کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی ہے۔ ان ممالک میں امریکی فوجی اڈے بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ امریکہ اپنی جارحانہ پالیسی کی بنا پر چھوٹے ممالک کو زبر کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکہ نے اپنی جنگ کو اپنے مفادات تک محدود کر رکھا ہے۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جال خود امریکہ کا پھیلایا ہوا ہے۔ پاکستان کو دنیا میں امن کی بحالی کے نام پر اپنا اتحادی بنایا گیا۔ پاکستان نے اس اتحاد میں شامل ہوکر اپنی سالمیت کو بھی داﺅ پر لگا دیا۔ دوسری جانب پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ نہ صرف افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکہ کی مدد کرے بلکہ خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان کے ٹھکانے اور مراکز بھی ختم کرے اور ساتھ ہی اتحادی افواج کی سپلائی لائن کی خاطر پاکستان کی زمینی‘ سمندری اور فضائی حدود کو بھی استعمال کرنے کی اجازت لی گئی۔ پاکستان نے امریکہ کی بھرپور مدد کی لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اس کا حصہ ”ڈومور“ کے مطالبے کی شکل میں ملا۔ امریکی جنگ جو پاکستان پر مسلط کی گئی اس جنگ میں 70 ہزار سے بھی زائد جانیں جان چکی ہیں جبکہ سوا سو ارب ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوا ہے مگر اس کے باوجود عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کررہی۔ ان حالات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اب امریکہ اور بھارت کو دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی جنگ کے خلاف ہے لیکن اگر کسی نے پاکستان پر جارحیت کی تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان یقینا کسی قسم کی اسلحہ کی دوڑ میں شریک نہیں ہوگا مگر پھر بھی اپنے دفاع کا حق ہر صورت میں محفوظ رکھتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں لیکن یہ سراسر غلط ہے بلکہ اس کے برعکس پاکستان میں افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار سرگرم عمل ہیں جن کے خلاف بھرپور انداز میں فوجی آپریشن جاری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان تو اپنی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کررہا ہے مگر افغانستان میں ان دہشت گردوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت بھارتی خحفیہ ایجنسی ”را“ تربیت دیتی ہے اور پھر بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں ان عناصر کو چور راستوں سے داخل کروا دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب خود پاکستان میں بعض سیاسی عناصر اپنے ہی سکیورٹی اداروں پر بلاوجہ تنقید بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو جمہوریت اور آئین پاکستان کا سب سے بڑا چمپئن کہتے ہیں لیکن خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں قومی بیانیہ جاری کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے نااہل ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے کبھی بھی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا نام نہیں لیا اور نہ ہی اس بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کی پاکستان دشمن سرگرمیوں کا کسی بھی فورم تر تذکرہ کیا۔ اب اس پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے کیونکہ اس وقت تمام پاکستان دشمن قوتیں منظم گٹھ جوڑ کرکے میدان میں آ چکی ہیں۔ اب یہ امر بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ بھارت اب ہمارے پانیوں پر بھی قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ اس موقع پر آرمی چیف نے مسئلہ کشمیر کے دیرپا حل کیلئے سفارتی اور سیاسی عمل کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے جو خود بھارت اور خطے کے مفاد میں ہے۔
جمہوری روایات کی مضبوطی ہی ہم سب کی مضبوطی ہے‘ قومی اداروں مضبوط ہوں گے تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ اب افغانستان کی جنگ افغانستان میں ہی لڑی جائے۔ ماضی میں یہ جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی تھی جس کا خمیازہ پاکستان ابھی تک بھگت رہا ہے۔
آرمی چیف کا یہ کہنا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں امریکہ اور ناٹو کی مدد کی جاتی رہے گی یہ درست ہے لیکن اب پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ عالمی طاقتوں کو اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری خود تسلیم کرنی چاہئے۔ پاکستان کو اس کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کررہا ہے۔ مسئلہ کشمیر‘ ایٹمی پروگرام اور خطے میں بھارت کی بالادستی کے بارے میں امریکہ کے کسی بھی مطالبے کو ہر قیمت پر رَد کیا جانا چاہئے اور ساتھ ہی چین‘ روس‘ ترکی اور ایران کو اعتماد میں لے کر ازسرنو حکمت عملی وضع ہونی چاہئے۔ پاکستان 21 کروڑ کی آبادی پر مشتمل ایٹمی طاقت ہے۔ اسے عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوشش کی گئی تو پھر اقوام عالم کا امن بھی برباد ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے کہ جس کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہئے اور اس پر باہر سے بلاوجہ تنقید نہیں ہونی چاہئے۔ تمام ممالک کو مل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کردار اداھ کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی ان کی ناکام پالیسی کا ہی تسلسل ہے اور وہ اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔ افغانستان کے مسئلے کا حل سیاسی ہے نہ کہ فوجی۔ آرمی چیف نے یوم دفاع پاکستان کی تقریب میں جن دیگر امور کا تذکرہ کیا‘ ان میں بعض ایسے امور ہیں کہ جن کو میڈیا میں اجاگر ہی نہیں کیا گیا یعنی انہوں نے اپنے خطاب میں بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے۔ امریکہ سے اب امداد نہیں عزت کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کا حق ہے کہ انہیں دہشت گردی اور کرپشن سے پاک ملک دیا جائے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا ہے کہ ”میں نے پاکستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں آنے والی سحر کا نور دیکھا ہے‘ مجھے یقین ہے کہ ان کے توانا بازو میں تقدیر بدلنے کی طاقت ہے‘ میرے لئے وہ دن انتہائی خوشی کا ہوگا جب پاکستان کی باگ ڈور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہوگی اور پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا“۔ سکیورٹی کے حوالے سے سیاسی اور عسکری قیادت میں اتفاق رائے بھی وقت کی ضرورت ہے اور پھر اس کی روشنی میں اصلاحات بھی جنگی بنیادوں پر ہونی چاہئے جن کے بغیر قومی ایکشن پلان شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ درس گاہوں اور خاص طور پر مدارس کی اصلاحات کے علاوہ پولیس میں بھی انقلابی اصلاحات لانے کی ضرورت ہے جس سے دہشت گردی کے عفریت کا بلاتفریق مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے یوم دفاع پاکستان کے موقع پر دیئے گئے تاریخی خطاب کو جی ایچ کیو کا قومی بیانیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پہلی بار دنیا کو مضبوط پیغام دیا گیا ہے کہ عالمی طاقتیں اگر پاکستان کا ساتھ نہیں دے سکتیں تو وہ پاکستان پر الزام تراشی بھی نہ کریں۔ اب یقینا دشمن کی پسپائی اور مملکت پاکستان کی ترقی کا وقت آگیا ہے۔ گمراہ اور بھٹکے ہوئے عناصر غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر جو کچھ کررہے ہیں‘ یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی سے بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے جس سے بھارت کھل کر دہشت گرد ملک کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن دنیا اس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں جس کی بڑی وجہ خود ہماری کمزور سفارت کاری ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قومی مفادذات کے بجائے ذاتی مفادذات کو ترجیح دی ہے۔ اب ہر حال میں ہمیں جی ایچ کیو کے قومی بیانیے کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here