امریکا کی افغان پالیسی اور کابل دہلی لابی!!!

0
167

اصفر امام

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک سو ستر دن سے زائد ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ سب سے پہلے امریکہ کو ترجیح دیں گے اور یہ کہ امریکہ دنیا کا ٹھیکدار نہیں ہے ہر ایک کے معاملات کو سنھالا دینے کی ذمہ داری لے اس لئے ہر ملک کو اپنی ترقی اور جمہوریت کے فروغ کے لئے خود کام کرنا ہوگی۔ صدر ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ ان کی سوچ تاجرانہ ہے وہ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اپنے ملک کی ترقی کے لئے ترجیحی طور پر کام کرنا چاہئے اور دنیا بھر کے غم میں اپنا غم غلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اس لئے انھوں نے انتخابی مہم کے دوران ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ طویل افغان جنگ کا خاتمہ کرکے وہاں سے اپنی افواج کو واپس بلالیں گے۔ لیکن حال میں ان کی جانب سے جاری ہونے والی نئی افغان پالیسی ان کے اس سوچ کے بلکل ہی برعکس ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ اگر جلد بازی میں افغانستان سے افواج کا انخلائ کیا گیا تو یہ خلا انتہائ پسند پر کریں گے لہذا امریکہ عراق کی غلطی کو افغانستان میں نہیں دہرائے گا۔ یہی نہیں ا نھوں نے سیکریٹری دفاع جنرل منٹس کو تقریبا چار ہزار اضافی افواج افغانستان میں تعینات کرنے کی اجازت بھی دیدی ہے حالانکہ انھیں خوب پتہ ہے کہ جب دو ہزار دس کے وسط تک افغانستان میں تعینات ایک لاکھ چالیس ہزار نیٹو افواج وہاں افغان حکومت کی حاکمیت قائم نہ کرسکیں تو یہ چند ہزار امریکی افواج وہاں کیا کرلیں گی۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغان جنگ نکلنا اب امریکہ کے لئے اسان نہیں رہا ا۔ صدر اس بات کی جانب اشارہ ضرور دیا ہے کہ امریکہ ہمیشہ ا?فغانستان میں نہیں رہے گا لیکن شائد ان کی نظر میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر دنیا بھر میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں ایک گروپ اسے پاکستان کے خلاف حتمی وارننگ قرار دے رہا ہے تو دوسرا گروپ اس وارننگ کو کوئی اہمیت ہی دینے کو تیار نہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ایسی وارننگ امریکہ برسوں سے پاکستان کو دیتا آیا ہے۔ یہ بات تو خود پنٹاگون کے جنرل اعتراف کرتے ہیں کہ سولہ سال کی جنگ کے باوجود افغانستان میں کامیابی کوسوں دور ہے۔ اربوں ڈالر کے کثیر اخراجات سے امریکہ نے جو افغان حکومت قائم کی اس پر بدترین کرپشن کے الزامات ہیں۔ خود نئی افغان فوج کی تعمیر بھی کرپشن کے نذر ہوگئی۔ صورتحال یہ ہے کہ افغان حکام کو اور فوجی جنرلز کو براہ راست امریکی اکاونٹ سے تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں اس کے باوجود ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوسکی کہ ملک میں بغاوت کو کچل سکیں۔ معاشی امور اور رائے عامہ کی تعمیر کے لئے دی گئی کثیر رقم کرپشن کے نذر ہوکر بیرون ملک چلی جاتی ہے اور ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔واشنگٹن میں تجزیہ نگار کھلے عام کہتے ہیں کہ افغانستان امریکہ کے لئے وہ گڑھا بن چکا ہے جس میں اربوں کھربوں ڈالر ڈالے جاچکے ہیں لیکن یہ گڑھا ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لتا۔ ان حالات میں صدر ٹرمپ نے فیصلہ کیا تھا کہ افغان جنگ کو پرائیویٹائز کردیا جائے جیسا کہ امریکہ میں بشتر ادارے پرائیوٹائز کردئے گئے ہیں یعنی کنٹریکٹرز کے حوالے کردئے گئے ہیں۔ صدر کے دیرینہ دوست بلیک واٹر کے بانی ریک پرنس نے یہی تجویز دی تھی کہ افغانستان میں فوج تعینات کرکے اس کے بھاری اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ان اخراجات کی ایک تہائی سے بھی کم خرچ کرکے افغان میں فتح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس تجویز کے اس قدر مداح تھے کہ توقع یہی کی جارہی تھی کہ صدر اس تجویز کو منظور کرلیں گے اور پانچ ہزار نہایت تربیت یافتہ بلیک واٹر کنٹریکٹرز افغانستان میں بندوق کے زور پر امن قائم نے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔لیکن فوج کے تجربہ کار جنرلوں نے اس تجویز کو قابل عمل قرار نہیں دیا اور ان کے دباو پر نہ صرف ٹرمپ افغان جنگ کو پرائیوٹائز کرنے سے باز رہے بلکہ فوری طور پر فغانستان سے انخلائ بھی نہ کرپائے۔ افغانستان کی یہ جنگ امریکہ کی طویل ترین جنگ ہے۔ سولہ سال گرزنے کے باوجود اس بات کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں کہ یہ کب ختم ہوگی۔ٹرمپ ہی نہیں امریکی اسٹبلشمنٹ بھی اس جنگ سے نکلنا چاہتی ہے لیکن شکست کا داغ لے کر نہیں کیونکہ شکست کا داغ لے کر سپر پاور دنیا کے سامنےکس طرح کھڑا رہ سکے گا۔ وہ جان چکے ہیں کہ یہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی اس لئے ناکامی کا ملبہ کسی نہ کسی پر تو ڈالنا ہی تھا ؟ اب تو خود سیکریٹری خارجہ ریکس ٹیلرسن طالبان کو کہ رہے ہیں وہ مذاکرات کریں۔ وہ کہ رہے ہیں کہ طالبان کو سمجھ لینی چاہئے کہ اگر یہ جنگ ہم جیت نہیں رہے تو وہ بھی جیت نہیں سکتے اس لئے مذکرات کے سوائ کوئی راہ باقی نہیں رہی۔ دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو افغانستان پر حملے کے لئے بھی امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت تھی اور اب وہاں سے باعزت واپسی کے لئے بھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے اس لئے تجزیہ نگار کی نظر میں پاک امریکہ تعلقات میں تعطل کا کچھ زیادہ امکان نہیں۔ پاکستان کو دھمکیاں دراصل پاکستان پر دباو بڑھا کر افغانستان سے باعزت واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کے سوائ اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ امریکی صدر کی حالیہ دھمکیوں پر واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک بروکنگ انسٹیٹوٹ میں جنوبی ایشیائ کی ماہر دیڈافل براون کا کہنا ہے کہ جس طرح کی زبان ٹرمپ نے استعمال کی ہے اس سے پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل آسکتا ہے اور اگر پاکستان پر زمینی حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا جوابی حملہ زیادہ مہلک ثابت ہوگا اور امریکی مفادات کو زیادہ نقصان پہنچے گا ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سخت ردعمل دے اور وہ پہلے بھی ایسا کرچکا ہے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے جواب میں افغان سرحد بند کرکے امریکہ کو پریشانی سے دوچار کردیا تھا۔ وہ اب بھی افغان سرحد کو بند کرکے افغانستان میں امریکہ کے لئے مشکلات کھڑی کرسکتا جس کے نتیجے میں خود افغانستان میں ترقی کی راہیں مسدود ہوسکتی ہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سنٹر فار گلوبل پالیسی کے سنیئر فیلو کامران بخاری بھی وانڈا فل براون کے خیالات کی حامی نظر آتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات دونوں ممالک کی ضرورت ہے اس لئے توقع نہیں کہ کوئی بھی فریق کسی انتہائی اقدام کی جانب بڑھے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ نئی افغان پالیسی میں کچھ نیا نہیں۔ وہی پرانی شراب ہے لیکن بوتل نئی ہے۔ پاکستان پر دباو پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی برقرار رکھا جائے گا۔ انھوں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ نئی افغان پالیسی کے اعلان سے پہلے ہی اس کے خدو خال کیا ہوں گے اس بات سے پاکستانی حکام کو اگاہ کردیا گیا تھا۔یعنی جو کچھ ہوا اس سے پہلے ایک انڈسٹرینڈنگ پیدا کی جاچکی تھی۔ واشنگٹن کے ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ پاکستانی حکام کو پہلے اعتماد میں لیا گیا۔سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن نے خود براہ راست وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کرکے آنے والی نئی پالیسی کے بارے میں اگاہ کیا گیا۔ اور اس پالیسی کے اجرائ کے فوری بعد اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انھیں اس پالیسی کے بارے میں وضاحتیں پیش کیں۔ اور پھر نئی پالیسی پر پاکستان کی جانب سے کسی سخت ردعمل کا فوری طور پر نہ آنا جبکہ چین اس بارے میں اپنا ردعمل دے چکا ہے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نئی امریکی پالیسی میں کوئی نئی بات۔لیکن ایسی بھی کوئی بات نہیں کہ پاکستان پر دباو بڑھانے کے لئے نت نئے اقدامات سامنے نہ آئیں۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی کی بات ہے جب ابھی نئی افغان پالیسی کی آمد کا انتظار تھا اور اس کے مجوزہ نکات پر بحث کا سلسلہ جاری تھا ایسے میں واشنگٹن میں دو اہم واقعات پیش آئے ، ایک یہ کہ امریکن فرینڈز اف بلوچستان نامی ایک غیر معروف تنظیم کے زیر اہتمام بلوچستان پر ان کہی کہانیاں کے عنوان سے ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مذاکراے کا دعوت نامہ افغان اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن یو ایس اے کی جانب سے جاری کیا گیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مذاکرے میں کوئی ایک افغان طالب علم بھی موجود نہیں تھا۔ اس مذاکرے سے سابق بھارتی سفارتکار۔ ایک پنڈت اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارتی نڑاد ڈائریکٹر اور ایک افغان سرگرم خاتون کے علاوہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی کریسٹائن فیئر نے خطاب کیا جو پاکستان مخالف دانشور کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں سی پیک کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال کے باعث امریکی حکام کو چاہئے کہ وہ پاکستانی فوج کو اسلحے کی فراہمی روک دے اور اس کی ہر قسم کی مدد بند کردے۔ اس مذاکرے کے فوری بعد ہمیں ایک پریس کانفرنس کا دعوت نامہ ملا جس کی میزبانی بھی ایک بھارتی امریکن پنیت اہلووالیا کررہا تھا۔یہ دعوت نامہ تھا ورلڈ مہاجر کانگریس نامی تنظیم کے پہلی پریس کانفرنس کی جس میں سے ایم کیو ایم لندن کے چند رہنماوں نے خطاب کیا ان میں سندھ کے سابق وزیر عارف صدیقی ، ہوسٹن سے تعلق رکھنے والے ایم کیو ایم کی مرکزی کونسل کے رکن جمشیدوارثی اور دیگر شامل تھے، اس پریس کانفرنس کے میزبان پنیت اہل والیا کے ساتھ ان کی افغان ساتھی بھی موجود تھی جبکہ ان کی دعوت پر بھارتی میڈیا نے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کی اور اسے بھرپور کوریج بھی دی۔ اس پریس کانفرنس میں بھی کم و بیش وہی لب ولہجہ دیکھنے کو ملا جو ہم نے دو دن پہلے بلوچستان پر ہونے والے مذاکرے میں دیکھا تھا۔ ان رہنماوں نے پہلے تو واضح کیا کہ وہ ایک مہاجر ایڈوکیسی گروپ کے طو رپر سامنے آئے ہیں اور ایم کیو ایم سے باضابطہ استعفی دے کر اس گروپ کی بنیاد ڈال رہے ہیں۔پھر انھوں نے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے بھارتی موقف کی ترجمانی کی اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ کیونکہ ان کے خیال میں پاکستان کا وفاقی نظام ناکارہ ہوچکا ہے۔ انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان میں ایک ایسی ریاست بھی بنائی جائے جہاں مہاجروں کو اکثریت حاصل ہو تاکہ وہ وہاں اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ اب یہ دیکھنے کی بات کہ کیا یہ وہ موقف نہیں جس کا خواب بھاری دیکھتا آیا ہے اور جس کا گاہے بگاہے الطاف حسین بھی اظہار کرتے رہے ہیں۔ ؟ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے اجرا سے قبل بھارتی اور افغانی لابی کی مشترکہ کاوشوں سے واشنگٹن میں منعقد ہونے والے ان دونوں پروگراموں کا اہتمام کس بات کی نشاندہی کررہا ہے کیا یہ کوششیں بھی پاکستان پر دباو بڑھانے کے سلسلے کی کڑی نہیں ؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here