مجیب ایس لودھی، نیویارک
جمعہ کو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اوورسیز نہیں بلکہ وطن عزیز کے عظیم سفیر ہیں اور پنجاب حکومت نے ان کے مسائل کے فوری ازالے کے لئے اوورسیز پاکستانیز کمیشن بنایا ہے جس نے مختصر عرصے کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مسائل اور شکایات کے ازالے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں اور یہ کمیشن مکمل بااختیار ہے۔ اب کوئی بھی بیرون ملک مقیم پاکستان کے عظیم سفیروں کی جائیداد یا رقم پر ہاتھ صاف نہیں کرسکتا۔ وہ لندن میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ شہباز شریف نے وفد سے گفتگو میں کہا کہ دیارغیر میں لاکھوں کی تعداد میں رہنے والے عظیم سفیروں کے مسائل کے حل کیلئے قائم کیے گئے ادارے ”اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب“ کی کارکردگی لائق تحسین ہے اور جس جذبے اور محنت کے ساتھ یہ ادارہ کام کررہا ہے اگر ملک کے دیگر ادارے اسی جذبے اور لگن کے ساتھ کام کرنے کا عہد کرلیں اور پوری قوم یکجان دوقالب ہوکر فیصلہ کرلے تو یقینا ملک کے حالات سالوں میں نہیں بلکہ ہفتوں میں بدل جائیں گے اور پاکستان کو درپیش چیلنجز اور مسائل حل ہوجائیں گے۔ قومی معیشت کی مضبوطی میں کردار ادا کرنے والے عظیم پاکستانیوں کے لیے اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی شکایات کے ازالے کیلئے بے لوث انداز میں کام کررہا ہے اوراس ادارے نے اب تک ہزاروں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کر کے انہیں ریلیف فراہم کیا ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی حب الوطنی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وطن عزیز کو جب بھی کسی ناگہانی ارضی و سماوی آفت کا سامنا کرنا پڑا یا کسی آڑے وقت میں ان کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی تو دیارِ غیر میں سرد و گرم موسموں کی چیرہ دستیوں کا سامنا کر کے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے روزگار کمانے والوں نے اپنی جمع پونجی نچھاور کرنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں کی۔ سچ تو یہ ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت وطن واپسی کے لئے مضطرب ہے۔ ان کا اضطراب و سوز دیدنی ہے لیکن ہمارے حکمران طبقات کے تغافل، تساہل، بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں، بے قاعدگیوں، قانون شکنیوں اور ماورائے آئین کرتوتوں نے داخلی و خارجی سطح پر ملکی و قومی وقار کو داغدار بنانے کا مذموم عمل جس بھیانک انداز میں جاری رکھا، وہ ان تارکین وطن کی وطن واپسی کے راستے میں رکاوٹ بننے کا موجب ہے۔ اگر یہاں قانون کی حکمرانی کا چلن ہو اور عوام کے منتخب نمائندے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کریں تو ساڑھے تین عشروں سے مسخ شدہ صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور اپنی بہترین اہلیتوں، قابلیتوں اور صلاحیتوں سے امریکی ریاستوں اور مغربی ممالک کی ترقی میں کردار ادا کرنے والے یہ شہری تعمیر وطن اور استحکام وطن کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے لئے بے پناہ محبت رکھنے والے ان تارکین وطن کو موجودہ اور ماضی کے حکمرانوں نے کس قانون، قاعدے اور ضابطے کے تحت ووٹ دینے کے حق سے تادم تحریر محروم رکھا ہے اور محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ موجودہ ارباب حکومت جن مشکلات کو ان کے حق رائے دہی استعمال کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ ایسی نہیں ہیں کہ انہیں موجودہ پارلیمنٹ قانون سازی کر کے دور نہ کر سکتی۔ مشاہدہ اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ اپنے مفاد کی تکمیل ،مراعات کی تحصیل اور گروہی مقاصد کو قانونی بنانے کے لئے حکمران سیاسی جماعتیں اور ان کے ارکان پارلیمان مختصر ترین وقت میں قانون سازی کر لیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے متعدد مرتبہ حکمران جماعت نے آئینی مقتضیات کی بھی پروا نہیں کی۔یاد رہے کہ 5مارچ 2013ءکو نگران حکومت کے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ جس کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کر رہے تھے، کو بتایا تھاکہ ”آئندہ انتخابات میں سمندر پار پاکستانیوں کے حقِ رائے دہی کے استعمال کو یقینی بنانا ایک انتہائی مشکل کام ہے، الیکشن سے پہلے تارکین وطن کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا، یہ کام اگلی پارلیمنٹ ہی کر سکے گی “۔ اٹارنی جنرل کی اس اطلاع پر عدالت نے کہا کہ ”ووٹ دینا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا آئینی حق ہے، حکومت معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر جائے اور پارلیمنٹ اس کے لئے قانون سازی کرتے ہوئے کوئی قابل عمل حل نکالے“۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لئے معاملے پر متعلقہ حکام خصوصاً وزیر قانون سے بات کریں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں تارکین وطن کو ووٹ کا حق دلانے کے لئے درخواست پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ایک شہری نے دائر کر رکھی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 2012ءکو الیکشن کے انعقاد سے 14ماہ قبل الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ ایسا نظام وضع کرے کہ ہر رجسٹرڈ ووٹر اپنا ووٹ ڈال سکے۔ اصل مسئلہ تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینا ہے۔ یہ ان کا حق ہے اسے کسی بھی حکومت یا ادارے کو بھیک کی طرح دینے سے اجتناب برتنا چاہئے۔ یہ الیکشن کمیشن کا فرض منصبی تھا کہ تب وہ بیرون ملک مقیم چوالیس لاکھ پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے استعمال کے لئے پارلیمنٹ، وزارت قانون اور وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر طریق کار طے کرتا۔ یہ موجودہ الیکشن کمیشن کا سنگدلانہ تغافل ہے کہ مزید پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے لیے کوئی طریق کار وضع نہیں کرسکا، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس حوالے سے محض بیانات کے اجراءپر اکتفا کیا۔ جانے وہ تارکین وطن کے حق رائے دہی کے لیے قانون سازی کو کس خدشے اور خوف کے تحت ٹالتے رہے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ، تقریباً 6ملین سے زائد ووٹوں کا معاملہ ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ محض اس قسم کے رسمی جملے کہنے سے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل نہیں ہوتے کہ ’بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اوورسیز نہیں بلکہ وطن عزیز کے عظیم سفیر ہیں‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے 2018ءکے انتخابات میں ابھی 10 ماہ پڑے ہیں ، ارباب حکومت کو چاہےے کہ وہ عملی طو رپر بیرون ملک پاکستان کے ان عظیم سفیروں کے حق رائے دہی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کریں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھی پابند کریں کہ وہ بیرون ملک مقیم چھ ملین سے زائد ووٹرز کو اُن کے ووٹ کا حق دلانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
٭٭٭