قسط نمبر 2
محترم قارئین! حضرت فاروق اعظمؓ کی عظمتیں قرآن اور احادیث سے بالکل واضح ہیں، آپ کی خصوصیات بہت زیادہ ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام کے معاملہ میں رشتہ داری اور دنیاوی محبت کا اثر ان کے دل پر کبھی غالب نہیں آیا۔ اس خصوصیت کی ایک بہت ہی روشن مثال ہے تین ہجری جنگِ اُحد میں ایک ایسا واقعہ آیا کہ اچانک کفار نے مسلمانوں کے پیچھے سے اتنے زور سے حملہ کر دیا کہ مسلمان اس ناگہانی زود کوب کو نہ روک سکے اور کافروں نے پتھروں اور تیروں کی ایسی بوچھاڑ کر دی کہ رحمتﷺ کے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ پیشانی اقدس پر زخم لگے اور آپ زخموں سے نڈھال ہو کر ایک گڑھے میں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے، اس برہمی اور پریشانی میں ناگہاں یہ شور پڑ گیا کہ رسول اللہﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ جنگ اُحد میں یہ وہ نازک وقت تھا کہ مسلمانوں کا استقلال متزلزل ہو گیا بلکہ بہت سے مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے مگر اس ہوش ربا حالات میں بھی حضرت عمر فاروقؓ میدان سے ہٹے نہیں تھے، پورے عزم و استقلال کےساتھ کفار کے مقابلہ میں ڈٹے رہے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضور اکرمﷺ فلاں گڑھے میں زندہ سلامت ہیں تو فوراً دوڑ کر خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے۔ سن پانچ ہجری میں جنگ خندق کا معرکہ پیش آیا تو خندق کے ایک حصہ کی حفاظت کیلئے رحمت عالمﷺ نے فاروق اعظمؓ کو متعین فرمایا۔ ایک دن کافروں نے اس جگہ سے خندق پار کر کے حملہ کا ارادہ کیا تو آپؓ نے آگے بڑھ کر حملہ روکا اور کفار کے لشکر کو درہم برہم کر دیا۔ چنانچہ آج بھی وہاں آپؓ کے نام کی مسجد موجود ہے، تمام غزوات میں آپؓ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہادری و شجاعت کے جوہر دکھائے۔ آپؓ کو حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں ہی اپنا ولی عہد اور جانشین مقرر کر دیا تھا، لہٰذا آپ 22 جمادی الاضری 13 سن ہجری کو مسجد خلافت پر تشریف ففرما ہوئے۔ آپؓ کے دور خلافت میں بڑی بڑی اسلامی فتوحات حاصل ہوئیں۔ سن ہجری کے لحاظ سے چند فتوحات کا تذکرہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے جس سے آپ کو یہ اندازہ ہو سکے گا کہ حضرت فاروق اعظمؓ کا دور اسلام کی ترقی کیلئے کتنا زریں زمانہ تھا۔ سن 14 ہجری میں دمشق، حمص بدلبک، بصرہ اور ایلہ فتح ہوئے اور اسی سال آپؓ نے لوگوں کو تراویح کیلئے جمع کیا۔ سن 15 ہجری میں اردن اور طبریہ صلح سے فتح ہوئے اور اسی سال جنگ یرموک ار قادسیہ کا معرکہ پیش آیا اور اسی سال آپ کے حکم سے سعد بن ابی وقاصؓ نے کوفہ شہر کو آباد کیا اور اسی سال آپ نے مجاہدین اسلام کی تنخواہیں مقرر کیں اور جاگیریں عطاءفرمائیں۔ 16 سن ہجری میں اہواز اور مدائن فتح ہوئے اور حضرت سعد نے کسریٰ کے محل میں جمعہ پڑھا۔ اسی سال قنسرین، حلب، تکریت وغیرہ فتح ہوئے اور اسی سال جب حضرت فاروق اعظمؓ تشریف لے گئے تو بیت المقدس بھی فتح ہوا۔ اسی سال آپ نے سن ہجری مقرر فمریا۔ 17 سن ہجری میں آپؓ نے مسجد نبوی شریف کو وسیع فرمایا اور اسی سال حجاز کو وہ مشہور قحط پڑا جو تاریخ عرب میں ”عام الرمادہ“ کے نام سے مشہور ہوا۔ 18 سن ہجری کو جند، نیشاپور، حران، نصیبن وغیرہ فتح ہوئے اور انہی ایام میں ایک زبردست طاعون پھیلا جس کو طاعون ”عواس“ کہتے ہیں۔ 19 سن ہجری کو ”قیساریہ“ کو مسلمانوں نے جنگ کے ذریعے فتح کیا۔ سن 20 ہجری میں مصر فتح ہوا اور تستر کا مشہور قلعہ بھی فتح ہو گیا اور اسی سال آپ نے خیبر اور نجران سے یہودیوں کو جلا وطن فرمایا اور نیز خیبر وادی القریٰ کی زمینوں کو مجاہدین اسلام کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ 21 سن ہجری میں اکندریہ اور نہاوند فتح ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔ 22 سن ہجری میں آذر بائیجان، دینور، ہمدان، طرابلس، الغرب، رے، عسکر وغیرہ فتح ہوئے۔ 23 سن ہجری میں کرمان، سجستان، مکران کے پہاڑی علاقوں اور اصفہان وغیرہ پر بھیج کشی کر کے سب کو اسلامی سلطنت کا جزو بنا لیا اور اسی سال کے آخر میں حج سے واپسی کے بعد آپ کی شہادت ہو گئی۔ اسلامی فتوحات کے علاوہ اور بھی بڑی بڑی خدمات آپؓ نے اپنے دور خلافت میں انجام دیں۔ آپؓ کے دور خلافت میں چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں اور قرآن مجید کی تعلیم اور نشر و اشاعت کا پوری سلطنت میں ایک ایسا نظام قائم فرمایا جس کی بدولت ہزاروں حفاظ اور محدثین و علماءو فقہاءوجود میں آگئے۔ دس سال تک خود ہی امیر الحج رہے اور اپنے خطابات اور خطوط و فرامین کے ذریعے اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے اور اپنے عمال حکومت کو بھی تبلیغ اسلام اور تعلیم دین کی نشر و اشاعت کی تاکید فرماتے رہے۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کے درجوں کو بلندی عطاءفرمائے اور ہم سب اور سب حکمرانوں کوآپ کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین۔
٭٭٭