پاک بھارت کشیدگی اور عالمی طاقتیں!!!

0
115
خالد ایچ لودھی
خالد ایچ لودھی

خالد ایچ لودھی
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کی پاکستان کے خلاف مہم جوئی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ اپنے ٹویٹ کے ذریعے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے سیکیورٹی کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت میں شہریت کا متنازع قانون احتجاجی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں بھارتی مہم جوئی کے متعلق عالمی برادری کو خبردار کر رہے ہیں۔ مزید براں بھارتی آرمی چیف کے بیانات کو بھی سکیورٹی کے لئے خطرہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کے خدشات اس لحاظ سے بے جا نہیں کہ کنٹرول لائن پر شر انگیزی کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا تھا کہ بھارت نے کنٹرول لائن پر نصب باڑ کئی مقامات پر کاٹ دی ہے۔ جنوبی ایشیا کی عمومی اور پاکستان کی خاص طور پر بدقسمتی ہے کہ اس کے ہمسائے میں بھارت جیسا ملک ہے۔ ہندو سیاستدانوں نے پہلے قیام پاکستان کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اور پھر پاکستان کی بقا و سلامتی کے لئے خطرات پیدا کئے۔ تنازع کشمیر ہر لحاظ سے واضح ہے، قانون آزادی ہند برصغیر کی خود مختار ریاستوں کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں۔ الحاق کا اختیار کیسے ہو یہ اصول طے نہ کیا گیا۔ بھارت نے اپنے حجم اور طاقت کی بنیاد پر ہر چیز کا تعین اپنی منشا کے مطابق کیا۔ مہاراجہ کشمیر کو ورغلا کر بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرا لئے گئے حالانکہ 80فیصد سے زاید مسلم آبادی بھارت کا حصہ بننے کو تیار نہ تھی۔ دوسری طرف جب حیدر آباد اور جونا گڑھ کے حکمرانوں نے اسی اصول کے تحت پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو بھارتی فوج نے ان ریاستوں پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ الحاق کا فیصلہ حکمران نہیں شہری کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں 139روز سے کرفیو اور محاصرہ کا ماحول ہے۔ کشمیریوں کے بنیادی حقوق معطل ہیں۔ بھارتی فوج ہر گھر کی تلاشی لے رہی ہے اور کم سن بچوں کو حراستی مراکز میں منتقل کر رہی ہے۔ کشمیریوں کی ابتر حالت کے حوالے سے پاکستان نے ہر بین الاقوامی پلیٹ فارم پر آواز بلند کی ہے۔ دوست ممالک ملائشیا اور ترکی نے کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا۔ یہی نہیں امریکی ایوان نمائندگان اور سینٹ میں بھارت کی مذمت اور اس سے مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں اٹھارہ کروڑ سے زائد مسلمان ہیں۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی عیسوی کے ابتدا میں ہندوستان میں شدھی‘ سنگٹھن جیسی متعددانتہا پسند تحریکیں موجود تھیں۔ ان تحریکوں کا مطالبہ تھا کہ ہندوستان میں صرف وہی رہ سکتا ہے جو ہندو ہے دوسرے مذاہب اور نسلوں کے افراد کو ہندوستان سے چلے جانا چاہئے۔ تحریک آزادی کے دوران کانگرس نے پہلے صرف ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر مشترکہ مطالبات ترتیب دیئے مگر بعدازاں مسلم و غیر مسلم کی بنیاد پر سیاسی نمائندگی طے کرنے کی چال میں کامیاب ہوئے۔ مسلمان تنہا کر دیے گئے اور ہندوﺅں نے بہت سے مسلمانوں‘ سکھوں‘ پارسیوں‘ دلتوں اور مسیحیوں کو غیر مسلم کی چھتری تلے جمع کر کے ایک بڑا علاقہ ہتھیا لیا۔ آج کا ہندوستان اس لئے جنوبی ایشیا میں سب سے بڑے رقبہ اور آبادی کا حامل ہے کہ وہاں مسلمانوں سمیت بہت سی اقلیتیں موجود ہیں۔ نوے کے عشرے میں بھارتی سیاست ایک انتشاری بھونچال کی زد میں آ گئی۔ انتہا پسند گروہوں اور ان کے سیاسی چہرے بی جے پی نے اقلیتوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مسلمان‘ عیسائی‘ دلت‘ سکھ کوئی ان کے شر سے محفوظ نہ تھا۔ پھر بی جے پی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی تحریک شروع کی۔ اس مذموم عمل کو ہندوستانی سماج میں پذیرائی ملی۔ بھارت نے سیکولر ازم اور جمہوریت کے نقاب کے پیچھے جو متشدد ہندو سوچ چھپا رکھی تھی وہ سامنے آ گئی۔ بابری مسجد شہید ہوئی۔ ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھ مقبول ہونے کا ایک نسخہ آ گیا۔ اس کے بعد گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔بابری مسجد کی شہادت نے بی جے پی کو مرکز میں اقتدار دلایا اور گجرات فسادات نے نریندر مودی کو وزیر اعظم کے منصب تک پہنچا دیا۔ مودی حکومت کی پالیسیاں خطے میں کشیدگی کی بنیاد بننے لگیں۔ مودی حکومت کا تازہ کارنامہ شہریت بل ہے۔ اس قانون میں پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندوﺅں کے لئے شہریت دینے کی بات کی گئی ہے جبکہ پاکستان‘ افغانستان ‘ اور بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت دینے کی مخالفت کی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ بھارت کے مختلف علاقوں میں رہنے والے مسلمان باشندوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس ملک کی دستاویزات پیش کریں جہاں سے ان کے اجداد ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ اس قانون کو متعصبانہ اور نسلی و مذہبی امتیاز پر مبنی قرار دے کر مسلمانوں اور سیکولر حلقوں نے احتجاج شروع کر دیا۔ آسام‘ دہلی ‘ ممبئی اور کولکتہ میں پولیس نے یونیورسٹیوں اور ریلیوں پر یلغار کی۔ متعدد افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارت میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچ ابھرنے لگی ہے کہ ملک کو ہندو انتہا پسند یرغمال بنا چکے ہیں۔ یہ ساری صورت حال بھارت میں ٹوٹ پھوٹ پیدا کر رہی ہے ،اس صورت حال کی ذمہ داری مودی حکومت پر عائد ہوتی ہے لیکن حسب سابق وہ داخلی مسائل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا کر اپنی کوتاہی کو چھپانا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم نے عالمی برادری کو صورت حال کے سیاق و سباق سے آگاہ کر کے حفظ ماتقدم کے تقاضے پورے کئے ہیں۔ ہندو توا کا ایجنڈہ بھارتی اقلیتوں کے خاتمہ کی بات کرتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر مسلمانوں میں پہلے سے احساس محرومی موجود ہے‘ بابری مسجد پر چند ہفتے قبل آنے والے تفصیلی فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ سیاستدان ہی نہیں کسی زمانے میں اپنی خود مختاری پر نازاں بھارتی عدلیہ بھی ہندوتوا کا ایجنڈا قبول کر چکی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here