’خانہ جنگی کا بڑا خطرہ درپیش“

0
137
مجیب ایس لودھی

ہرگزرتے دن کے ساتھ ملکی تاریخ کے بنیادی اصولوں کے اوراق تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں ، تاریخ کے وہ سنہری اصول جن کی بنیاد پر ملک کی تخلیق ممکن ہوپائی تھی اب تیزی سے خاتمے کی جانب سے گامزن ہیں اور ملک میں دو گروپ اس سلسلے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ، ایک وہ گروپ ہے جوکہ چاہتا ہے کہ امریکہ اپنے بنیادی اصولوں اور تاریخی اوراق کو رد کرتے ہوئے دور جدید کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھے تو دوسرا گروپ وہ ہے جو چاہتا ہے کہ امریکہ کی تخلیق کے حامل اصول ہی اس کی کامیابی کا راز ہیں، ان اصولوں کو دور حاضر کے ساتھ لے کرچلنے کی ضرورت ہے جبکہ ان بنیادی اصولوں سے انحراف ملک کو مہنگا پڑ سکتا ہے ۔امریکی کی تاریخ اور اس کے سنہری اصولوں کو ختم کرنے یا دور حاضر میں ساتھ لے کر چلنے میں ملک کے تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے جس تیزی کے ساتھ ملکی اقدار اور ترقی پسند سوچ کو کھو رہے ہیں ، یہ حقیقت میں حیران کن امر ہے ، ہماری یونیورسٹیز ،کے 12 سکولوں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔ہم میں سے اکثریت یہ سوچتی ہے کہ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے لیکن اس مرتبہ یہ ریجنل مسئلہ نہیں ہے بلکہ آئیڈیالوجیکل مسئلہ بن گیا ہے ، کلیمسن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر سی بریڈلی تھامسن کا کہنا ہے کہ ہوم سکول جانے والے طلبا کی ماﺅں نے آنے والے خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کیخلاف اعلان جنگ کر دیا ہے ۔اپنے ٹی وی ونٹرویو کے دوران انھوں نے امریکہ کے مستقبل اور تعلیمی اداروں کو درپیش خطرات کے متعلق شدید خدشات کا اظہار کیا ہے ،ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں دو سکول آف تھاﺅٹس جنم لے چکے ہیں ،ایک ملک کی اعلیٰ تاریخی اقدار سے ناخوش ہے اور اس کو دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کا حامی ہے جس کی تازہ مثال صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شرمناک مواخذہ بھی ہے جبکہ سرکاری سکولوں اور یونیورسٹیوں کا تیزی سے بدلتا نظام بھی اس گروپ کی سوچ کی عکاسی کر رہا ہے کہ وہ کس قدر تیزی کے ساتھ امریکی اقدار کو زوال پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ امریکی معاشرے میں زندگی کے بنیادی حق ، انصاف پسندی اور خوشحال زندگی جیسی اقدار تیزی سے معدوم ہو رہی ہیں ، میرے خیال میں اس وقت جو امریکہ کو اندرونی طور پر سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ ہے کہ معاشرتی تقسیم کا جوکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، پروفیسر نے بتایا کہ امریکہ کا پڑھا لکھا طبقہ بالکل بھی سچائی پر یقین نہیں رکھتا ہے اگر 2016 کے دوران آکسفورڈ ڈکشنری میں درج کیے گئے الفاظ پر غور کیا جائے تو اس میں ایک لفظ درج کیا گیا ہے جس کو (Post-Truth)یعنی غالب سچ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں مکمل سچائی کو چھپایا گیا ہے تو لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم آدھے سچ والے معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں ، سچائی ہمیشہ کیپیٹل ٹی کے ساتھ نمایاں ، مکمل اور عالمی ہوتی ہے، اس میں آدھے سچ کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے لیکن اگر اس غالب سچ پر معاشرہ آگے بڑھے گا تونظریاتی خانہ جنگی ضرور ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں سے معاشرے میں خانہ جنگی کی بنیاد پڑ سکتی ہے ، ہم اپنی آئندہ نسل کو بتانے جا رہے ہیں کہ معاشرے میں مکمل سچ کی بنیاد نہیں ہے ۔معاشرے کی مثبت تخلیق میں ملک کے تعلیمی ادارے دو ستونوں کی طرح معاشرتی ڈھانچے کو سہارا دینے میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ، ایک غالب گروہ ملک میں پوری سوچ پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں جس کی واضح مثال ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے تعلیمی ادارے ہیں خاص طور پر سرکاری تعلیمی ادارے انتشاری گروہ کی غالب سوچ کے زیر اثر ہیں اگر ہمیں ملک کی معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو تیزی سے کھوکھلا کرنے والے اس گروہ کا مقابلہ کرنا ہے تو پہلے تعلیمی اداروں کو ان کی نظریاتی سوچ سے آزاد کرانا ہوگا ،اس سلسلے میں ہوم سکول جانے والے طلبا کی ماﺅں نے تو آغاز جنگ کر دیا ہے اور وہ اپنے بچوں کو ملک کی اخلاقی اقدار سے جڑا رکھنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں ،سرکاری سکول اور ہوم سکول اس وقت ملک کے دو بڑے گروہوں کے نظریات کی عکاسی کر رہے ہیں ۔پروفیسر نے بتایا کہ اس وقت اکیسویں صدی میں ہمیں جس خانہ جنگی کا سامنا ہے، اس میں تشدد ، ہتھیاروں کے استعمال اور جارحیت شامل نہیں ہے بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے جوکہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا ساتھ لے جائے گی،میرے خیال میں ایسے تمام افراد جو ملک کی تاریخی اقدار ، نظریات اور اخلاقیات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں انہیں ہر صورت ہوم سکولنگ کی بھرپور مدد کرنا ہوگی اور اپنے بچوں کو ہوم سکولنگ سے جوڑنا ہوگا تاکہ اس حوالے سے بنیادی کردار ادا کر سکیں۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here