کامل احمر
جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن دنیا کو خیر باد کہنا ہے، کچھ ایسے ہیں جو اپنی طبعی عمر سے پہلے حادثے یا کسی کی انتقامی کارروائی کا شکار بنتے ہیں کچھ ایسے جو غلط وقت میں غلط جگہ پر ہوتے ہیں اور ناگہانی حادثہ کا شکار بن جاتے ہیں، بہت سے ایسے ہیں جو اپنی پوری عمر کر کے جاتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ ملال رہا جو اچانک وقت سے پہلے گئے اور یہ سب اچھے لوگ تھے اور دوسروں کی امیدوں کا مرکز تھے، جو ہماری آنکھوں کے سامنے آنجہانی ہو گئے، ان میں وہ بھی جنہوں نے حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لی اور یہ وہ تھے جنہوں نے عوام یعنی اپنے چاہنے والوں کو تفریح فراہم کی وحید مراد کا جانا ہمارے لئے ابھی تک دکھ اور تکلیف کا سبب بنا رہا۔ رفیق خاور (ننھا، الف نون) جس نے فلموں میں ہنسایا اور جس کا ہر ہفتہ اسلام آباد سے کراچی شائقین کو انتظار رہتا تھا لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا تھا، بھئی آج تو میرا پسندیدہ الف نون آرہا ہے گھر میں رہونگا، وہ خاموشی سے سب کو اُداس کر گیا۔ ہماری سلور اسکرین کی نامور اور مقبول ترین اداکارہ، رانی، کسی سنگدل نے اُسے قتل کیا، معمہ حل نہیں ہو سکا اور پاکستان کے مشہور بین الاقوامی شہرت یافتہ آرٹسٹ گل جی، کو ان ہی کے گھر میں ان کی شریک حیات کےساتھ قتل کر دیا گیا، معمہ تاحال حل نہیں ہو سکا، ان لوگوں کا اور جن لوگوں نے ان کی جان لی وہ دماغی طور پر شیطان کے چیلے تھے ایسا ہی ایک واقعہ ہالی ووڈ کی جوا سال اداکارہ شیرن ٹیٹ کا ہے جسے فیشن تنظیم کے حیوان صفت آدمی نے اس کے باتھ روم میں قتل کیا تھا اس کے قتل کی خبر ہم نے ہی اخبار دی سن میں پچھلے صفحہ پر لگائی تھی یہ اگست 1969ءکی بات ہے اور ایک صبحہ ہم گھر سے چائے کیلئے دودھ لینے نکلے تھے کہ صبح 7 بجے کی خبروں میں شکیل احمد کی آواز میں یہ خبر سننے کو ملی امریکی صدر گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے،یہ نومبر 23 کی بات ہے، پاکستان میں کینیڈی نہایت ہی مشہور تھے جب سے صدر ایوب خان واشنگٹن میں ان کی دعوت پر ملنے گئے تھے اور ان کا استقبال سرخ قالین بچھا کر کیا گیا تھا کیا شان تھی اور کیا وقار تھا ایوب خان کا اور پاکستان کا۔ کئی سال پہلے قندیل بلوچ نامی فنکارہ کو غیرت کے نام پر اس کے سگے بھائی نے مار دیا تھا، یہ بھی ایک دماغی فتور کے نتیجے میں تھا پھر اس سے پہلے مقبول ترین لیڈر بینظیر بھٹو کو دن دیہاڑے سازش کے نتیجے میں قتل کر دیا گیایہ دل ہلا دینے والا حادثہ تھا جو قدرت کی طرف سے نہیں بلکہ انسانی سازش کے نتیجے میں تھا سب کو معلوم ہے اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا لیکن کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے ضمیر کی آواز سنے ایسا ہی قتل اس کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا ہوا تھا۔ سب کو معلوم ہے لیکن سامنے کون آئے کہ ہماری عدلیہ نے قاتلوں اور ڈاکوﺅں کو سزا دینے کا رواج ختم کر دیا ہے اور آج پاکستان میں دن دیہاڑے اور رات میں سینکڑوں قتل ہوتے ہیں اور قاتل پکڑا بھی جائے تو انگلیوں سے V کا نشان بنا کر نکلتا ہے۔ پولیس بھی قتل کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی ہے کہ ان کو بھی اپنی جان پیاری ہے۔ پاکستان میں یہ طاقتور مافیا جو امریکہ کی مافیا سے کہیں زیادہ طاقتور ہے وجہ اس کی عدلیہ اور بکاﺅ ججز ہیں۔ ابھی حالیہ لاہور میں ہسپتال پر وکیلوں کے جارحانہ حملے کے نتیجے میں 4 مریضوں کی موت (ہم اسے قتل کہیں گے) کے ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں ملی اور وہ کالے کوٹوں میں عدلیہ میں گھوم رہے ہیں۔ کراچی میں لوگ ڈرتے تھے کہ الطاف بھائی کا راج ہے اور اب ہمیں فون پر کسی نے بتایاکہ لوگ وکیلوں سے ڈرنے لگے ہیں یہ ایک مافیا کی شکل میں پاکستانی معاشرے میں گُھس چکے ہیں۔
اسی طرح اسلام آباد کی یونیورسٹی میں دو گروہوں کے تصادم کے نتیجے میں ایک بے گناہ طالب علم کا قتل کیا جا رہا ہے پتھر لگنے سے ہوا اس سے پہلے بھی پشاور میں ایسا ہی واقعہ ہو چکا تھا اور اس کا کوئی سد باب نہیں۔
یہاں ہمارے وکلاءدوست کہتے ہیں اس میں ججوں کا کیا قصور استغاثہ کمزور کیس پیش کرتا ہے جج کے سامنے اور اور گواہ نہیں آتے سامنے اللہ اللہ خیر سلا۔ کچھ نہیں ہوتا لیکن امریکہ میں قاتل انجام کو پہنچتا ہے کیسے کیسے چراغ بجھے ہیں گھروں کے، اور ہم لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں عدلیہ اور پولیس یہ دو ادارے ہیں ذمہ دار ملک کے اندرونی سکون اور لاقانونیت کے ذمہ دار۔
کوئی ثبوت نہیں ملا، مجرم کی طرف سے یہ دعویٰ ہوتا ہے اور لیڈر پکڑے جانے سے پہلے نعرے بازی کرتا ہے جیسے وہ ہالی ووڈ کی فلم کا ہیرو ہے۔ “Catch Me If You Can” بلاول کی مسلسل بکواس اداروں کےخلاف اپنے باپ کی زبان، نیب کےخلاف چیخ چیخ کر ملامتیں۔ یہ لوگ ہر اخلاقی پابندی سے آزاد ہیں اور معاشرے میں دہشت پھیلانے کے بھی ذمہ دار، احسن اقبال کو نیب نے پکڑا ہے اور چیخ رہے ہیں، صاحبزادے۔
اب ہمیں یہ لکھنے میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ پاکستان ایک ناکام ریاست بن چکا ہے ایک ایسا اونٹ جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ،ہر نظام افرا تفری کا شکار ہر ادارہ بھاٹ مٹی کا کنبہ۔ ARY کا ایک پروگرام عرصہ سے چل رہا ہے مقبول بھی ہے۔ CRIMNAL MOST WANTED جس کے پروڈیوسر علی رضا ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ صرف گاﺅں گوٹھوں میں کیوں جاتے ہیں کسی نامعلوم فرد کے قتل کی گھتیاں جو سلجھ چکی ہیں ذرا مشہور ہستیوں کے قاتلوں کو بھی اپنی سیریل میں لائیں ہم نے اپنے بڑے بھائی کے قتل کی گتھی سلجھانے کا کام ان کے کہنے پر انہیں دیا تھا لیکن وہ خاموش ہیں ہر چند کہ یہ ان کا کام نہیں لیکن ان کے ذرائع معلوم کر سکتے ہیں یہ شکایت نہیں ہم نے یونہی لکھ دیا کہ ایسے سینکڑوں قتلوںکی کہانی صرف فائلوں میں ہے اور مقتول کے لواحقین بھول چکے ہیں ہماری طرح کیا کبھی ہمارا ملک ایسا بنے گا کہ قاتل پکڑے جائیں اور سزا پائیں سزا ملنا دور کی بات یہاں تو قوم اور ملک کے دشمن اداروں کو منہ چڑا رہے ہیں ،حد تو یہ ہے کہ اب ججوں کی زبان بھی اور ان کے عزائم بھی ملزم کےخلاف ویسٹرن فلموں کے ولن کی طرح ہیں۔ اللہ خیر کرے۔
٭٭٭