کامل احمر
ولیم گلیڈ اسٹون برطانیہ میں1800میں وزیراعظم تھے انکا کہنا تھا کہ ظلم اور زیادتی کے متاثرہ لواحقین کو اگر جلد سے جلد انصاف فراہم نہ کیا گیا تو اس کا مقصد انصاف کی فراہمی میں انکار ہوگا اور ان الفاظ میں اس نے مختصراً کہا تھا”JUSTICE DELAYED IS JUSTCE DENED“ ”انصاف میں دیر انصاف دینے سے انکار ہوگا“کیا آج تک پاکستانی عدالتوں کے کسی بھی جج نے اس قول پر عمل کیا۔ہندوستان اور دنیا کے دوسرے پسماندہ ممالک میں برٹش راج کے دوران انصاف کی جلد سے جلد فراہمی ہی برٹش راج نے متاثرین کے لئے اہم سمجھا تھا اور وہ ہندوستان میں دو سو سال سے زیادہ راج کرگئے اور اس نظام کی پہچان تھے اسی دور کے وکیل اور مشہور جسٹس کارنیلیس(اے آر کارنیلیس) تھے۔ایوب خان نے انہیں پاکستان کا چوتھا چیف جسٹس نامزد کیا تھا ان کا ایک کارنامہ یہ بھی تھا کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھے انہوںنے بڑے بڑے مقدمات کے فیصلے جلد سے جلد کئے۔وکیلوں اور پراسیکیوٹرز کو معلوم تھا کہ وہ قانون کی بالادستی کے معاملے میں سخت ہیں۔ان کے بہت سے فیصلے قانون کی تاریخ میں سنگ میل ہیں۔ساتھ ہی ہم پاکستان سپریم کورٹ کے تین بدنام چیف ججوں کا بھی نام لکھتے چلیں جو بدعنوانی کے لئے مشہور ہیں کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔افتخار چودھری، انور جمالی اور ثاقب نثار ان میں ثاقب نثار نے اپنے باعزت عہدے کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کہ وہ چیمبر سے باہر نکل کر دودھ اور آٹے کا بھاﺅ کے علاوہ ملزمان کے کمروں میں گھُسے بھر ڈیم کے نام پر تحریک چلائی جو ان کا کام نہ تھا اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرسکے جو قوم اور ملک کے لئے سنگ میل ثابت ہوتا انکی حرکات کو قلم کرنا ممکن نہیں کہ وقت کا زیاں ہے۔ایک اور چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی ریٹائر ہونے سے چندہ ماہ پہلے بہت بدعنوانیاں کیں کہ اپنے بھائی بیٹے اور بیوی کے عہدوں کو ترقی دلوا دی انکے والد شوکت علی جمالی حیدر آباد سندھ کے مشہور وکیل تھے جن کے گھر(آفس بھی)کے سامنے روزانہ شاہ5بجے سے لوگوں کا تانتا بندھ جاتا تھا جو رات گیارہ بجے ختم ہوتا تھا محلے کے کسی پڑوسی سے ان کی کوئی سلام دعا نہ تھی۔افتخار چودھری اپنے صاحبزادے کی شرارتوں کے تعلق سے مشہور ہوئے اور جب پرویز مشرف نے انہیں عہدے سے ہٹایا تو انکے حواریوں نے ان کے لئے مہم چلائی اور مشرف کے جانے کے بعد وہ دوبارہ اپنے عہدے پر براجمان ہوئے اور اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچا۔
پاکستان میں لاقانونیت کا پھیلاﺅ بھی ان ججوں کی مرہون منت ہے جو قاتلوں اور ظالموں کے حق میں فیصلہ کرتے وقت کہتے ہیں کہ استغاثہ کمزور تھا یا پھر شہادتوں کا فقدان تھا۔ایسا کیوں ہے اس ملک میں جو اسلام کے نام پر بنا تھا اور ان ججوں نے قانون کی بالادستی کے چیتھڑے اڑا دیئے کہ عوام اور باہر ملکوں میں رہنے والوں نے کیلا ریپبلک کا نام دیا۔اگر غور کریں تو استغاثہ کمزور ہی ہوتا ہے لیکن جب کوئی جرم کسی مجرم سے مرتکب ہوتا ہے اور مظلوم تھانے میں ایف آئی آر درج کراتا ہے تو پھر مدعی حکومت بن جاتی ہے۔قاتل یا مجرم کے خلاف اور اس میں کسی بھی ملک میں مختلف بات نہیں، امریکہ ہو یا برطانیہ یا پاکستان، دوسرے پسماندہ ملکوں میں جب تک کوئی جرم میڈیا کے ہتھے چڑھ کر گلی گلی مشہور نہ ہوجائے عدلیہ کے ججز خاموشی سے مجرم کو بری کردیتے ہیں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا قانون پاکستان میں ہر جگہ ملے گا۔ افسوس کہ ہمارا ملک اندرونی سازشوں کا شکار بن کر جگ ہنسائی کا نشانہ بن گیا ہے۔انڈیا میں بس کے اندر ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوتی ہے۔ملزم پکڑے جاتے ہیں جن میں سے چار کو پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے وہ بھی8سال بعد اسکے برخلاف ہمارے پاکستان میں ایسے سفاکانہ قتل اور معصوم لڑکے لڑکیوں کے علاوہ عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کے جرائم ہوتے ہیں اور معاملہ فائلوں میں بند ہوجاتا ہے اور مجرم آزاد گھومتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں بلدیہ ٹاﺅن گارمنٹ فیکٹری میں لگائی گئی آگ کے سانحہ کی طرف جس کے نتیجہ میں258افراد جل کر راکھ ہوگئے یہ منظر ہم نے دوبارہ حالیہ ترکی کے ڈرامے سیریل ارطغرل میں دیکھا کہ کس طرح منگول قبیلوں کو آگ لگا کر مارتے ہیں اور پھر ان کا بدلہ لینے کے لئے ارطغرل اٹھتا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان میں نہ تو برطانیہ کا جج ولیم گلیڈ اسٹوں آئے گا جو لواحقین کو انصاف فراہمی کرے اور یہ فیصلہ جو محفوظ ہے۔2ستمبر سے پچھلے ہفتہ فیصلہ منظر عام پر آنا تھا لیکن کسی مصلحت کی بناءاب22ستمبر کو سنایا جائے گا فیصلہ اگر مجرمان کو سزا دلوانا ہے تو اس سزا پر عمل درآمد ہونے کے انتظار کرنے کے لئے حضرت نوح کی عمر درکار ہے عوام سمیت ہمیں بھی کوئی امید نہیں واردات کے ملزمان کو واقعی سزا ملے گی آپ کہہ سکتے ہیں جس انصاف کے انتظار میں ماﺅں، بیویوں، بہنوں اور بچوں کی امیدیں سرد پڑ گئی ہیں وہ انصاف نہ ملنے مترادف ہے اور یہ المیہ ہے کہ یہ لیڈمارک ناانصافی ہے رینجرز نے اورJITرپورٹ کے تحت اس واردات کے ملزمان ایم کیو ایم کے سرکردہ بھتہ خور تھے۔اسی دن بھی11ستمبر2012کو لاہور کی شو فیکٹری میں آگ لگنے سے پیش آیا تھا اور25افراد جل کر راکھ ہوگئے تھے اور لاہور ہی میں نوازشریف کے بھائی شہبازشریف اور ثناءاللہ کے سرکردگی میں ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کو گولی چلانے کا اشارہ کیا گیا اور دو عورتوں کے منہ میں بندوق کی گولیاں اتار دی گئیں ویڈیو عام ہوا لیکن تاحال معاملہ فائلوں میں بند ہے اس سانحہ میں14افراد کا قتل کیا گیا تھا2014میں ہوا تھا۔
پرسوں یعنی20ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس تھی جس میں شہباز شریف نے بھی اپنے سنہری الفاظ سے کانفرنس میں شامل افراد اور ٹی وی پر دکھائی جانے والی کارروائی کے شائقین کو نوازہ کانفرنس میں شامل یہ افراد قوم اور ملک کے مجرم اور قانون سے ملنے والی سزا کے مفرور ہیں۔سب دیکھ رہے ہیں مولانا فضل الرحمن، بلاﺅل زرداری کے علاوہ زرداری نے ویڈیو تقریر کے ذریعے اور نوازشریف کے اپنی صحت خراب ہونے کی بناءکافی دیر بے تکان فوج کا نام لئے بغیر عوام کو گمراہ کرتے رہے فوج کے خلاف انکے سنہری الفاظ یہ تھے کہ انکی جنگ عمران خان سے نہیں، ہمارا پوچھنا یہ ہے ان تمام قوم کے ملزمان سے پچھلے35سال میں تم نے کوئی ایسا کام کیا جو تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا جائے؟۔