بدمست سیاستدان، بدمست عدلیہ، اور بدمست ہاتھی !!!

0
65
کامل احمر

آج عاصمہ جہانگیر کا جملہ یاد آتا ہے ”اوپر جو بیٹھے ہیں وہ ڈفر ہیں” یاد نہیں رہا کہ یہ جملہ کس کے لئے کہا گیا تھا لیکن پچھلے کئی سال کے حالات دیکھ کر اشارہ اوپر بیٹھے ہاتھیوں کی طرف ہے کیا واقعی یہ ڈفر ہیں۔ ڈفر کے دوسرے معنی بزدل بھی ہیں اور ایسے کند ذہن جن کا دماغ تو ہو لیکن سوچنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو لیکن ہم اس کے برخلاف کہیں گے کہ جب انسان لالچ میں پڑتا ہے تو بزدل بھی ہو جاتا ہے، ڈالرز کی چاہ میں وہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوتا ہے جو اُسے بزدلی کے پیرائے میں لے جاتا ہے۔ اس لالچ میں جنرل کیانی، راحیل شریف اور سب سے زیادہ لالچی باجوہ رہے، ایک اور بات انسان کتنا طاقتور ہو لیکن اندر سے ایک انجانے خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور اپنے آقائوں کی ہر غلط بات سنتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں باجوہ عمران کو لایا اور باجوہ نے ہی عمران کو نکالا۔ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس نے لالچ میں کیا کہ اگر نہ کیا تو موت ہے۔ اور جب وہ تاریخ کو دیکھتے ہیں تو انہیں خوف آتا ہے کہیں ان کا حشر بھی، صدام، قدافی، بھٹو، ضیاء الحق کا سانہ ہو یہ سب کے سب بدمست ہاتھی ہیں۔
یہ جنرل ایک بھارتی پرانی فلم ”پتنگا” کے کردار لگتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کرلیں کہ باجوہ صاحب فلم کے کامیڈی کردار گوپ ہیں اور وہ بار بار امریکہ جاتے ہیں اور نگار باقی کے جنرلز ہیں جو پاکستان میں مزے اڑا رہے ہیں، ان پر یہ گانا پورا اترتا ہے۔”میرے پیا گئے رنگون وہاں سے آیا ہے ٹیلیفون اور ہیروئن کو فون پر جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور وہاں عیاشی کر رہے ہیں۔ ہم نے تاریخ کا جائزہ لیا لیکن باجوہ کی کوئی مثال نہیں ملی جس نے ایک طویل عرصہ تک ملک قوم اور ایک اچھے سیاستدان کو دھوکہ دیا ہو۔ بادشاہ اور جرنیل نے ملک اور قوم کے لئے اپنی جان کی قربانیاں دی ہیں۔ ٹیپو سلطان اور چیچنیا کا ایک مسلمان جنرل جس نے روس سے لڑتے ہوئے جان دے دی اور ایک ہمارے جنرلز جنہوں نے بنگلہ دیش وار میں مسلمانوں کی فتوحات ہی بدل دیں اور93ہزار فوجیوں سے ہتھیار ڈلوا کر ہمیشہ کے لئے ہندوستان کی برتری ثابت کردی یہ کارنامے ہیں ہماری بہادر فوج نہیں بلکہ بہادر جنرلز کے اور آج کے جنرلز تجارت میں لگے ہوئے ہیں۔ کونسی چیز ہے جس کا یہ کاروبار نہیں کرتے، بنکاری، کھاد، سیٹ اور سب سے زیادہ فائدہ مند رئیل اسٹیٹ جس میں انکے راتوں رات وارے کے نیارے ہو رہے ہیں اور اب سب کچھ قبضہ میں لینے کے بعد جنرل عاصم منیر فرما رہے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں۔ جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ یہ جوPDMہے۔ ججیز ہیں پولیس ہے اور ثناء اللہ اور مریم نواز یہ کس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ عمران خان کے حالیہ لاہور کے جلسے کا میڈیا پر بائیکاٹ کون کرا رہا ہے۔ امریکہ کی غلامی میں وہ کچھ مت کرو جس کا امریکہ نے نہیں کہا لیکن سارے راستے عمران خان پر آکر رکتے ہیں۔ سپریم کورٹ حکم دیتا ہے کہ الیکشن اپریل میں کرائو اور الیکشن کمیشن کہتا ہے ابھی حکم نہیں ملا، پوچھنا یہ ہے کہ کس کا؟ ہمارے جنرلز کے دو چہرے ہیں ایک چور کا اور دوسرا ساہوکار کا، مثال ایسے ہی نہیں بنی ہے۔”چور سے کہو چوری کر اور ساہوکار سے کہو پکڑ لو” اسی لئے عاصمہ جہانگیر نے کہا تھا یہ ڈفر ہیں عمران خان پر بے بات کیس بن رہے ہیں اور ججز ان کی سنوائی کر رہے ہیں۔ بیرون ملک میں کورٹ کلرک ایسے تمام کیسز کو پھینک دیتا ہے کہ یہ سنوائی کے قابل نہیں لیکنFIRکٹوانے والے اور کاٹنے والے ان ہی کے لوگ ہیں اور اب تک جنرلز اور عدلیہ اور کرپٹ سیاست دان جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ الیکشن کو اکتوبر تک لے جانا چاہتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے روزانہ عمران کے خلاف سازشیں بن رہی ہیں۔ ایک سے ایک دو ٹکے کا آدمی عمران خان کے قد کو چھوٹا کرنے میں جی حضوری کر رہا ہے۔
قانون میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب معاشرہ میں لاقانونیت اور افراتفری پھیل جائے تو ملک کی فوج کو مداخلت کرنی چاہئے۔ لیکن اس ملک میں ہر چیز نرالی ہے۔ ایوب خان آئے(جیسے بھی آیا) ملک نے ہر شعبہ میں ترقی کی ملک کا وقار بڑھا۔ نام پیدا کیا اورآج ایوب خان کو گالیاں دیتے ہیں۔ مشرف نے کچھ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ باجوہ ہی تھا جس نے بیرونی مداخلت سے پہلے زرداری اور پھر عمران کا ساتھ دیا اور جاتے جاتے جھوٹ کا پلندہ پھینک کر چلا گیا۔ تشدد ثناء اللہ نے پھیلایا ہے اور عمران کے٢ ہزار چاہنے والے جیل میں ہیں۔ نہ ہی عدلیہ اور نہ ہی جنرلز کو شرم آرہی ہے کہ اس طرح ملک کے مسائل حل نہیں ہونگے۔
غریبوں کے پاس پیٹ، بھرنے کے لئے آٹا دال نہیں۔12خواتین آٹے کی چاہ میں بھیڑیں روند کر جان بحق ہوچکی ہیں۔ اور وزیراعظم مسخرہ پن کر رہا ہے ادھر سندھ میں بلاول زرداری اور شرجیل میمن عمران پر پھونک رہے ہیں جن کی ساری زندگی عیاشیوں میں گزر رہی ہے۔ دوبئی میں آیان علی جیسی کتنی ہی عورتوں کا نمول ان کاانتظار کر رہا ہے۔ اور ڈاکٹر عاصم جیسا ملزم بھی ملک سے باہر ہے یہ سب زرداری کے خدمت گزار ہیں۔ عوام کے نہیں اگر آپ پریس کی آزادی کا ذکر کریں تو پاکستان میں مارشل لاء کے دور سے بھی زیرو ہے۔ سی بی ایس ادارے کے نیوز ریڈر اور مشہور صحافی والٹر کرونکائٹ نے کہا تھا۔ ”پریس کی آزادی میں جمہوریت ہے”
وارن کرسٹوفر کا کہنا تھا ”غیر جانب دار اور آزاد میڈیا کے بغیر حقیقی جمہوریت ناممکن ہے” اور اس سے بھی زیادہ اچھی بات نیلسن منڈیلانے کہی تھی۔ ”جمہوریت اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے” اور پاکستان میں نہ میڈیا آزاد ہے۔ اور اس کی تاریکی میں جمہوریت معدوم ہے اور انسان حقوق کا فقدان ہے۔ اور سب سے اہم بات جو آج کے پاکستان پر پوری اترتی ہے وہ ابراہم لنکن کے بقول ”قومیں بیرونی طاقتوں کے قبضہ سے نہیں مرتیں ،وہ اندرونی خلفشاری سے مرتی ہیں”اور آج پاکستان اندرونی خلفشاری سے مر رہا ہے اور مارنے والوں میں شامل ہیں۔ ”آدمی جنرلز، عدلیہ، پولیس اور مہا کرپٹ سیاستدان جن کے ہاتھ میں بیرونی اشارے پر حکومت سونپی گئی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا سب سے بڑا فرق یہ ہی تھا اور ہے ”برطانیہ نے ملکوں اور قوموں کو بنایا شعور دیا اور امریکہ بہادر کی دوستی اور دشمنی کا فرق جاننا مشکل ہے۔ سائوتھ امریکہ سے مڈل ایسٹ کونسی جگہ چھوڑی ہے۔ جہاں جہوریت آتی ہے اُسے الٹ دیا جاتا ہے اور جہاں آمریت ہو اسے بدل دیا جاتا ہے۔ یہ صدیوں سے ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا ایران سے دوستی نہیں ہوسکتی کیوں؟ معلوم نہیں۔مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں بادشاہت ہے کیوں؟ معلوم نہیں۔ بائیڈین صاحب50سال سے سیاست میں رہنے کے باوجود بھی کورے ہیں قصور صدر بائیڈین کا نہیں ان کے اردگرد ان لوگوں کا ہے جنہیں کوئی تجربہ نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here