پاکستان، ترکی اور ایران کیلئے لمحہ فکریہ!!!

0
484
پیر مکرم الحق

پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com

ٹرمپ حکومت نے ایرانی جنرل سلیمانی کی ڈرون حملے میں مار دیئے جانے سے ایک پینڈورا باکس کھول دیا ہے، ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے، ایران کو تو ایک عسکری نقصان پہنچایا لیکن اب وہ مسلمانوں کو فرقہ واریت کا شکار کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ حرمین شریفین کے بادشاہوں کو جنہیں مسلمانوں کی راہبری کرنی تھی وہ تو اپنے ہی لوگوں کے قتل میں مصروف ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات تو یمن کی وجہ سے پہلے ہی خراب تھے ترکی کےساتھ امریکی تعلقات بگڑتے جا رہے تھے جنہیں سنبھالا دیا گیا ہے ،اس خدشہ کے تحت کہ شاید آگے چل کر ایران کے خلاف ترک زمین اور ذرائع کے استعمال کی ضرورت ہو ،اسی لیے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ترکی اور پاکستان دونوں کو کہا گیا ہے کہ وہ امریکہ کی مدد کیلئے تیار رہیں۔قارئین میں سے اکثر علاقائی تنظیم RCD کے وجود سے بے خبر ہونگے یہ 1960ءکی دہائی میں بننے والی تنظیم پاکستان، ایران اور ترکی پر مشتمل علاقائی اتحاد پر مبنی تنظیم تھی RCD مخفف ہے علاقائی تعاون برائے ترقی (Regard Cooperative… ہے تینوں ممالک اس میں ہیں جو ایک دوسرے کے پڑوسی (قریبی) ممالک ہیں۔ اس لئے ان کیلئے نہایت ہی مشکل ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کےخلاف اپنی زمین اور ذرائع استعمال کرنے کی اجازت دیں۔ لیکن پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ 2001ءمیں آخر امریکہ کو افغانستان جیسے قریبی ہمسایہ ملک کیخلاف بھی تویہ اجازت دی گئی تھی لیکن اس وقت کی صورتحال مختلف تھی کیونکہ اس وقت ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا تھا اور اس حملے کے ملزمان کو افغانستان کی طالبان حکومت نے پناہ دی ہوئی تھی موجودہ صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اس وقت پہل امریکی حکومت نے کی ہے، ایران کے سپہ سالار کو قتل کر کے جواز یہ دیا جار ہا ہے کہ وہ جنرل امریکیوں کا قاتل تھا بھئی جنگ میں تو یہی ہوتا ہے ،کیا امریکی جنرلوں نے افغانستان اور عراق و شام میں کئی فوجی اور شہری نہیں قتل کروائے ؟کیا انہیں جنگی مجرم قرار دیا جا سکتا ہے اور اگر جنرل سلیمانی جنگی جرائم کا مرتکب تھے بھی تو بین الاقوامی عدالت میں ان پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا مقدمہ چالیا جا سکتا تھا۔ عراقی پارلیمنٹ نے آج ایک قرارداد کے ذریعے امریکی فوج کو عراق سے نکل جانے کی ہدایتک ی ہے۔ باقی مسلمان ممالک کی عوام بھی امریکی پالیسی کے یکطرفہ سمت سے نالاں ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ کی موجودہ حکومت عالمی سطح پر مسلمانوں کو ایک کونے میں دھکیل رہی ہے انہیں سعودی عرب کی بادشاہت سے اپنی قُربت پر ناز ہے لیکن سعودی شہنشاہیت کو تو اپنے ملک کی عوام کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت تو بہت دور کی بات ہے اگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے ایران کےخلاف اپنے اڈے امریکہ کے حوالے کئے تو فوج کے اندر بھی بغاوت کا امکان خارج کیا نہیں جا سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق فوج میں 25/30 فیصد افسران شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں پاکستان کی آبادی بھی اسی نہج پر دو فقہوں میں بٹی ہوئی ہیں آج یہی مقتدر شیعہ حلقوں نے پاکستان حکومت کو وارننگ دی ہے کہ پاکستان کو اس معاملے میں فریق نہیں بننا چاہئے۔ اس سے ملک میں انتشار پھیلنا خارج از امکان نہ ہوگا۔ یہ لمحہ فیصلہ کن ہے جوکہ عمران حکومت کے مستقبل کا فیصلہ بھی کرے گا خطہ کے حالات بہت خراب ہونے کا خطرہ ہے جس سے آگے چل کر عالمی حالات بھی متاثر ہوئے بعد نہیں رہ سکتے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی امریکی صدور کیخلاف مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے ۔انہوں نے امریکہ کو نئی جنگ میں جھونکنے کی کوشش کی ہے پچھلی صدی یعنی بیسویں صدی میں دو صدور کیخلاف ایسی کارروائی ہوئی صدر نکسن/ کیخلاف 1974ءمیں واٹر گیٹ کے مقدمہ میں اسی کارروائی کا آغاز ہوا لیکن وہ سمجھ گئے کہ اس عشق میں عزت سعادات بھی جائیگی اس لئے مستعفی ہو گئے البتہ صدر کلنٹن وک کانگریس نے 1998ءمیں IMPEACH کیا تو انہوں نے عراق پر حملہ کر دیا البتہ سینیٹ نے انہیں عہدے سے نہیں ہٹایا جس کی وجہ سے وہ صدارت کی دوسری معیاد پوری کر ہی گئے ۔صدر نکسن کیخلاف جب کارروائی ہوئی تو پہلے ہی ویت نام کی جنگ کے دلدل میں دھنسے ہوئے تھے عالم اسلام جب تک ملوکیت کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ان کا مستقبل تاریک ہے، ملوکیت اور آمریت سے جب تک جان نہیں چھٹتی عوامی رائے کا احترام نہیں ہوگا، اظہار رائے پر قدغنیں برقرار رہیں گی۔ ابھی پچھلے دنوں پاکستانی صحافی چودھری نصر اللہ کو دہشتگردی کے قانون کے تحت پانچ سال قیدبا مشقت دے دی گئی ہے، تحریک انصاف کے ایک وزیر فواد چودھری نے اپنے ہی حمایتی ٹی وی اینکر مبشر لقمان کو بھری محفل میں تھپڑ جڑ دیا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here