ایک پیج!!!

0
127
طاہر حنفی
طاہر حنفی

طاہر حنفی
جماعت نے عملی طور پر ایک پیج پر آکر یہ ثابت کیا ہے!
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
پارلیمنٹ میں تمام سیاسی گروپوں نے (ماسوائے جمیعت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے جن کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ وہ آئینی ترمیمات کی منظوری کے عمل کو متاثر کر سکتے لیکن انہوں نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لے کر اپنی سیاسی پوزیشن آنے والے کل کیلئے مضبوط کر لی کہ وہ حقیقی حزب اختلاف بن کر اُبھر سکیں، اتفاق رائے سے جو قانون سازی کی ہے اس کیلئے داد و تحسین سمیٹتے وقت پارلیمانی قیادت کو ”خود احتسابی“ کے عمل سے گزرنا ہوگا کہ وہ از خود اس حقیقت کو قانون سازی میں کیوں نہ ڈھال پائے تا وقت کہ عدالت عظمیٰ، قانون کی حکمرانی کا ورد کرتی کمزور قیادت کی مدد کیلئے میدان عمل میں اُتر آئی، آئینی ترامیم کی توصیف کرنے والے اصحاب کو تھوڑا سا کریڈٹ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی دینا چاہئے جن کے ایک فیصلے نے نہ صرف قانونی سقم کو دور کرنے کیلئے پارلیمان کی بالادستی کو یقینی بنایا تو دوسری طرف موجودہ سرکاری ڈھانچے میں اہلیت کے نام نہاد معیارات کا پول کھول دیا، اس کےساتھ ساتھ انہوں نے قومی دھارے میں مسلح افواج کے کردار کی قانونی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے تمام فیصلہ ساز قومی اکائیوں کو دعوت دے کر انہیں واقعی میں ایک پیج پر لا کھڑا کیا، اب تک نظریہ ضرورت کو بالآخر پہلے سے موجود عمرانی معاہدے کا حصہ بنا کر تمام ”با اثر“ پارلیمانی گروہ کثرت رائے سے پاس ہونے والی قانون سازی پر پھولے نہیں سماتے لیکن ان تمام حجت کیلئے انہوں نے قانون سازی کے عمل کے مختلف مدارج میں ٹیلی ویژن کی سکرینوں کے ذریعے عوام میں اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کیلئے ”شوگر کوٹڈ ڈرگز“ استعمال کی تاکہ ان کے بارے میں منفی تاثر کو تقویت نہ ملے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ پارلیمنٹ کےساتھ حکومتی بنچوں کے رویے میں برسوں سے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ جب کوئی بہت ”طاقتور شخص قائد ایوان ہوا کرتا تھا تو جھٹ پٹ آئینی ترامیم منظور ہو جایا کرتی تھیں لیکن جب وہ پارلیمنٹ سے عملی طور پر ”باہر“ ہو گئے تو پارلیمانی طریقہ کار کی پاسداری کا ”بھاشن“ دے کر گلو خلاصی کرانے کی ناکام کوشش کی جس سے موجودہ اپوزیشن میں موجود اعتماد کی فضاءکو ”فنی طور“ پر نقصان پہنچا اور اس کی بنیاد پر ایک اور اکثریتی گروہ نے ”قواعد و ضوابط“ کی مکمل آگاہی کی بنیاد پر اپنی پارلیمانی حیثیت کو مضبوط بنایا لیکن یہ حقیقت دلچسپی سے پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ کے طالبعلموں کو وہ مناظر یاد کرائے گی جب پارلیمان قواعد و ضوابط سے جان بوجھ کر روگردانی کرنے والی ”کنٹینر قیادت، حسب معمول ”ناواقفیت“ کی بنیاد پر اہم معاملے کو جلدی اور فوراً کے فارمولے پر حل کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی۔ موجودہ قائد ایوان کی بد قسمتی یہ ہے کہ انہوں نے 2002-2007ءاور پھر 2013-18 میں پارلیمنٹ کو ایک درس گاہ سمجھنے کی بجائے صرف ”کلب“ سمجھا اور امور مملکت کو تفصیلی طور پر سمجھنے کے تمام ”سنہری مواقع“ ضائع کئے ایک مقبول، سیاسی رہنما ٹیلی ویژن پر پارلیمنٹ میں اپنے جمہوری بچونگڑوں کی Loud Entry کو سراہتے رہے اور نتیجہ یہ ہو اکہ قومی یکجہتی کے حصول کے ایک نادر موقع پر وہ اور ان کی قابل کابینہ، میں ایک بھی بروقت قوم تک یہ پیغام نہیں پہنچا سکا کہ مجوزہ قانون سازی مسلح افواج، کی قیادت کیلئے یکساں، قابل عمل ہوگی۔ پارلیمانی امور کے مختلف مراحل کا مکمل علم نہ رکھنے اور بقول شخصے نہ سننے کی صلاحیت کا نتیجہ ایک کنفیوژن کی صورت نکلتا رہا جہاں اس تاثر کو منفی طور پر تقویت ملتی رہی کہ ”کہیں“ سے جلدی ہے حالانکہ یہ بات حقائق کے برعکس ہے کیونکہ مختلف مراحل میں کم از کم چار دن کا وقت فنی تقاضہ تھا، بہر حال 2020ءکا ایک پیج مملکت خداداد کے باسیوں کو مبارک ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here