سیر تو لازم ہے مگر!!!

0
161
رعنا کوثر
رعنا کوثر

 

یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اپنے رد گرد چہل قدمی کیلئے ہی نکل جائیں اور قدرتی مناظر کو غور سے دیکھیں تو آپ کا دل نہ صرف خوش ہو جاتا ہے بلکہ آپ حسن فطرت کے اور فطرت کو ترتیب دینے والے کے قائل ہو جاتے ہیں۔
امریکہ میں قدرتی مناظر کی کمی ہے اور نہ ہی وسائل کی کمی۔ اس لیے یہاں پر رہنے والے گھومنے پھرنے کے بھی نہ صرف مزے لیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی ہر طرح کے خواب دکھاتے ہیں کہ جاﺅ بھئی گھومو پھرو، نت نئے پروگرام بناﺅ اور کوئی چھٹی ضائع نہ ہونے دو، بلکہ سہولتیں اتنی دےدی گئی ہیں محفوظ مقامات اتنے بنا دیئے گئے ہیں کہ اب تو لوگ اکیلے بھی کہیں جاتے ہوئے ڈرتے نہیں ہیں۔
ہم جب امریکہ آئے تو کچھ ایسا گھومنے پھرنے کا شوق نہ تھا، کیونکہ کراچی کے رہنے والے تھے ہمارے والدین ہم بچوں کو ضرور سیر کرانے لے جاتے تھے مگریہ سیر کلفٹن یا گاندھی گارڈن یا ہاکس بے تک محدود ہوتی تھی اس زمانے میں دوسرے شہروں میں آپ کسی رشتے دار کے پاس ہی جاتے تھے ایسے ہی گھومنے پھرنے کا رواج نہ تھا۔ اس لئے ایسی کوئی خواہش بھی نہیں تھی کہ ادھر سے ادھر گھومتے پھریں۔
امریکہ آکر بھی قناعت پسندی سے نیویارک میں آکر بس گئے، اچھی نوکری تلاش کی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ بہت اچھی گزر بسر ہو رہی ہے گاڑی خریدی جس میں زیادہ سے زیادہ نیویارک سے نیو جرسی چلے جاتے کہ وہاں بھائی اور کچھ دوست احباب رہتے تھے ہر ویک اینڈ پر یا تو کوئی رشتہ دار دوست احباب آجاتا یا پھر ہم کسی کے گھر چلے جاتے۔ گھر خرید کر اور بھی سکون آگیا، مزید دعوتوں کا سلسلہ بڑھا۔ گرمیوں میں بار بی کیو ہوتا گھر میں یا کسی پارک میں یا دوست احباب کے گھر میں معمول برسوں رہا اور اسی میں ہم سب خوش رہے، جب بچے ذرا بڑے ہوئے تو ان کو ڈزنی لینڈ گھما دیا وہ بھی خوش ہم بھی خوش۔ جیسے وقت گزرا اور جاب کے ماہ و سال میں اضافہ ہوابچے بڑے ہوئے تو دنیا میں گھومنے کی خواہشات نے سر اُبھارا، اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ساتھی ورکر چھٹیاں ہوتے ہی کسی نہ کسی ملک کا دورہ کرتا، آکر قصے سناتا اور پھر پوچھتا کہ تم کہاں جاﺅ گے چھٹیوں میں۔ بچوں نے بھی دنیا کی سیر کرنی شروع کردی، اب رہ گئے ہم میاں بیوی ہم یا تو قناعت پسند تھے یا عادت ہی نہیں تھی، دنیا میں گھومنے پھرنے کی، وہاں جا کر یوں لگتا دنیا کی دولت مل گئی ہے وہ خوشی بے فکری دنیا کی ہر سیر سے بڑھ کر تھی پھر جب وقت آگے بڑھا، بچوں کی طرف سے بے فکری ہوئی امریکی طرز زندگی ہمارے اندر سرایت کرنے لگا، تو چھٹیوں میں پاکستان کے علاوہ بھی کہیں اور جانے کا دل چاہا،ا یک دفعہ فلپائن کا دورہ نکالا، ایک دفعہ ترکی گئے، فلپائن کے بہت سارے جزیروں میں پھرے، ترکی کے بہت سارے شہر دیکھے، امریکہ کے ارد گرد کے ایک دو جزیروں کی سیر کی، اور اس بات کی اہمیت کو جانا کہ یہاں کی تھکا دینے والی روز مرہ کی زندگی میں چھٹیاں منانا کتنا ضروری ہے۔
جاب پر لوگ بہت پلان بناتے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تو ہم گھومیں گے ہی گھومیں گے ان کی دیکھا دیکھی یا ہمارا اپنا شوق ہی اب بڑھ گیا تھا کہ ہم نے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد پوری دنیا کی سیر کا پروگرام بنایا مگر اللہ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا، ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی میرے شوہر اللہ میاں کے پاس چلے گئے جو ہم نے گھوم پھر لیا وہی بہت تھا، آپ کو بہت پہلے دنیا کی سیر کو نکل جانا چاہیے تھا۔ کچھ لوگ بولے لیکن ہم دوسری دنیا سے آئے ہوئے لوگ ہیں اس دنیا میں اور اس کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے مگر میں اب بھی مطمئن ہوں، کیونکہ ہم بچپن سے ہی چھوٹی چھوٹی معصوم خواہشوں کےساتھ رہتے آئے ہیں بڑی خواہش اگر پوری نہ بھی ہوں تو اس کو اپنے اوپر طاری نہیں کرتے ہیں۔ خوش رہنے کیلئے گھومنے پھرنے کیلئے ہمارے ارد گرد کے مناظر بھی کچھ کم تو نہیں ہاں بس شرط یہ ہے کہ اپنے حسب حال ضرور سیرو تفریح کریں کیونکہ ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے یہ بہت ضروری ہے ہم نے یہاں آکر یہ ضرور سیکھا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خوش رہنے کیلئے دنیا کی سیر ضروری نہیں ہے یہ تو آج کل کا فیشن ہے ہمارے والدین ہمارے بزرگ بہت خوش رہتے تھے۔ کیونکہ ان کو دنیا کی سیر کا نہیں صبح کی سیر کا بہت شوق تھا بلکہ ہماری کتابوں میں بھی صبح کی سیر کا ذکر ہوتا تھا دنیا کی سیر کا نہیں، یہ چھوٹی سی تفریح نہ روپیہ پیسہ مانگتی ہے نہ کسی کا ساتھ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here