پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
کسی بھی مذہب معاشرے کی بنیاد بلاامتیاز احتساب اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے،منصف کی نظر میں تمام ایسے ملزمان جو انصاف کے کٹہرے سے ملا دیئے جاتے ہیں،انہیں پرکھنے کا معیار ایک ہی ہونا چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں ہے، ہمارے وطن کی کہانی تو بالکل نرالی ہے یہاں کی اشرافیہ نے انصاف کے نظام کو کچھ اس طرح ترتیب دیا ہے کہ قانون کی پکڑ تو فقط کمزور اور غریب کیلئے ہے۔امرا تو قتل بھی کردیں تو مہنگا وکیل کرکے جان چھڑا لیتے ہیں اگر اس سے بھی کام نہ بنے تو جج خرید لیتے ہیںاور جج تو پھر معتبر ہوتا ہے اس لئے اس کی کوئی پکڑ نہیں یہاں چھوٹا موٹا مجسٹریٹ ہے اور اس کے منصفانہ فیصلے اوپر والوں کے لئے تکلیف دہ ہیں۔تو اسے ضرور جھوٹے مقدمہ میں ملوث کرکے نہ صرف ملازمت سے فارغ کردیا جائے گابلکہ اگر افسران بالا ان سے زیادہ خفا ہوئے تو اس شریف آدمی کو جیل بھیج کر اسے معاشرے میں ہمیشہ کیلئے اچھوت بنا دیا جائیگایا پھر اعلیٰ عدالتوں میں موجود ایماندار اور نڈر جسٹس فائز عیٰسی کو آمدنی سے زیادہ اثاثہ جات کے مقدمہ میں ملوث کرکے ان پر دباﺅ ڈالا جائے گا کہ حکمرانوں کی مرضی کے فیصلے کریںجس ملک میں ارشاد حسین خان جیسے لوگوں کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا کر جنرل مشرف جیسے غاضب کی حکمرانی کو آئین کے عین مطابق قرار دے دیا جاتا ہے۔یاد رہے کہ یہ کسی ایک بے ضمیر جج کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ اکثریتی بینچ کا فیصلہ تھااور پھر اسی سے ایمان جج کو چیف الیکشن کمشنر بنوا کر جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو طول دینے کیلئے ریفرنڈم بھی کروایاجس میں عوام کی94فیصد نے یا اس سے زیادہ اکثریت نے مشرف کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ عام انتخابات میں کبھی55%فیصد سے زیادہ عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔کیا مذاق سے جب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ بکاﺅ مال اور بے ایمان بے انصافی کا نمونہ پہنچائے تو اس ملک میں انصاف کہاں ہوگا۔سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کا عدالتی نظام پاک اور صاف کیا جائے۔اصولی اور انصاف پر مبنی فیصلے نہ کرنے والے ججوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔عدالتی نظام میں جمہوری سسٹم متعارف کیا جائے تاکہ جج صاحبان من مانہ فیصلے نہ کرسکیں بلکہ عوام کی اجتماعی ذہانت سے بھی مستفید ہوا جائے۔آجکل اخباریں پڑھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ ہر سویلین اہم عودے پر ریٹائرڈ فوجی افسران کو متعین کیا جارہا ہے حالانکہ مروجہ قوانین میں ریٹائرڈ فوجی افسران کا پہلے سے تعین شدہ کوٹہ ہے لیکن بدقسمتی سے معاشرے کے تمام بار سوچ طبقات آجکل اتنے سلسلے ہوئے ہیں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ان غیر قانونی اور غیر آئینی تعینات کےخلاف زبان کھول سکتے ہیں۔کام پاکستان میں کوئی پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے ، جمہوری حکومتوں نے ماضی میں بھی فوج کے بہترین افسران جو کسی خاص کام میں مہارت رکھتے ہیں انہیں سول عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر مقرر کیا ہے اور انہوں نے بہترین کام کیا ہے لیکن تھوک کے حساب سے ریٹائرڈ فوجی افسران کی تقرریاں کبھی نہیں ہوئیں ہیں ، سب سے انوکھا واقعہ ریلوے کی وزارت میں پیش آیا، پہلے ہی ریلوے کا محکمہ خسارے میں چل رہا ہے، اوپر سے ایک ”ڈائریکٹر ویجلنس کا نیا عہدہ بنایا گیا ہے اور لاکھوں روپوں کی ماہانہ تنخواہ پر ایک میجر جنرل صاحب کو اس عہدے پر مقرر کر دیا گیا ہے۔ابھی سابق فوجی وزیر ریلوے جنرل(ر)جاوید اشرف کے چین سے بیکار ریلوے انجنوں کے برآمدات کے ٹیکہ سے نکلی نہیں ہے اور سوہنے پہ سہاگہ ہے کہ ایک مسخرے سیاستدان کو شیخ رشید کو ریلوے کے وزیر جیسی اہم اور سنجیدہ ذمہ داری دے دی گئی ہے۔اس کے علاوہ واپڈا میں بھی اہم ترین عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی افسران مقرر کرکے عمران خان تو حق نمک ادا کر رہے ہیںلیکن مصیبت غریب عوام کو چھیلنی پڑیگی جسے مہنگی بجلی بلوں کے ذریعے بار بار مارا جائیگا۔ریلوے جیسے مناسب قیمت کی مناسب سفری سہولت سے محروم ہوگا۔جنرل فضل حق کے بھائی فضل رازق نے بھی بطور واپڈا چیئرمین برطانیہ سے بیکار ٹرانسفارمر خرید کرکے ایک ٹیکہ واپڈا کو بھی لگایا تھا جنہیں مرد مومن جنرل ضیاءنے جرم ثابت ہونے پر سزا کے طور پر قطہ میں پاکستانی سفید لگا دیا تھا، پیٹی بھائی جو ہوا جب تک پاکستان کی غریب عوام اجتماعی طور پر سڑکوں پر نہیں نکلے گی، اپنی آپس کی نفرتیں عداوتیں ختم کرکے ہم بطور ایک ملک، ایک معاشرے کے لیے انصافی ظلم اور استعمال کے نظام میں پستے رہیں گے۔کسی مسیحا کسی سیاستدان کسی انقلابی رہنما کا انتظار چھوڑ دیں اپنی تقدیر اپنے مستقبل کے آپ ہی رکھوالے ہیں اگر اس درد اور تکلیف کے نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہے تو ملکر ایک قوت کی شکل میں سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔کتنوں کو جیلوں میں ڈالیں گے؟ کتنے ماریں گے،آنے والی نسلوں کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے یہ جدوجہد جیتنی ہوگی ورنہ سسک سسک کے مرنا ہوگا، آپ کے ججوں کا حال آپ سے بدتر ہوگا،خدا نہ کرے۔