جھوٹ ایک غیر اخلاقی عمل!!!

0
399
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

گزشتہ سے پیوستہ!!!
جھوٹ کے اسباب: مختلف روایات احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ان وجوہات میں سے چند اہم درج ذیل ہیں!
1۔ انسان میں نقص کا ہونا یعنی جھوٹ وہی بولتا ہے
جس کی ذات میں نقص پایا جاتا ہو۔
2۔ بری صحبت اور برے اجتماعات میں شمولیت انسان کو جھوٹ پر آمادہ کرتی ہے۔
3۔ جھوٹ کی عاقبت و نقصان سے جاہل ہونے کی وجہ سے بھی انسان جھوٹ بولتا ہے۔
نقصانات: جہاں جھوٹے شخص کو آخرت میں عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہاں وہ اس دنیا میں بھی بہت سی مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرے گا جن میں سے چند ایک نقصانات حسب ذیل ہیں!
1۔ دنیا میں وہ ذلیل و خوار ہوگا اور اسے ہر مقام پر ندامت اٹھانی پڑے گی۔
2۔ اس کا ایمان کمزور ہوگا۔
3۔ا س کے رزق میں کمی ہوگی۔
4۔ اس کا رعب و ہیبت ختم ہو جائےگا۔
5۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے شخص کو ہدایت کی نعمت سے محروم فرما دیتا ہے۔
6۔ جھوٹا شخص اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
7۔ جھوٹ کی وجہ سے انسان کئی دیگر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس سے اُسے دہرے عذاب کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ ایسے مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ البتہ روایات میں چند ایسے موارد کا ذکر ملتا ہے کہ جہاں پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
1۔ جنگ میں دشمن کو غافل کرنے کیلئے!
2۔ دو مومن بھائیوں کے درمیان صلح کروانے کیلئے!
3۔ بیوی کا دل رکھنے کیلئے کسی چیز کا وعدہ کرنا اگرچہ اس چیز کی دینے کی نیت نہ ہو۔
4۔ ایسا مقام کہ جہاں جان، مال یا عزت کو خوف لاحق ہو تو اس ضرورت کے تحت جھوٹ بولنا جائز ہے۔
جھوٹی قسم: جھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ہے مگر گناہ کے عذاب میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے مثلاً اگر ہم کسی گلی میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں تو اس کا عذاب کچھ اور ہوگا اور اگر ہم وہی جھوٹ مسجد میں جا کر بولیں تو اس کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔
قرآن کریم میں اس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔
بے شک وہ لوگ جو خدا سے کیے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کو قلیل رقم کے عوض فروخت کر دیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا اور ان کی طرف نگاہ رحمت نہیں کرے گا اور انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔
روایات معصومینؑ میں بھی جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی گواہی دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے جیسا کہ امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ! جو کوئی جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کی جھوٹی قسم کھائے گا گویا وہ خدا سے جنگ کرے گا۔
اسی طرح ایسی گواہی دینا کہ جس کی حقیقت معلوم نہ ہو جھوٹی گواہی کہلاتی ہے اور یہ بھی گناہ کبیرہ ہے اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔
جھوٹ کا علاج یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان اس گناہ کی خباثت کے بارے میں آگاہی حاصل کرے اور اس کو معمولی بات سمجھ کر اسے بے اعتنائی نہ برتے مثلاً کوئی شخص آپ کے گھر میں آپ کو ملنے آئے اور آپ گھر میں ہوتے ہوئے اس کو یہ پیغام بھجوائیں کہ آپ گھر میں نہیں ہیں تو یہ جھوٹ ہے اور اس طرح کے روز مرہ کے موارد میں جھوٹ سے بچنا چاہیے تاکہ کہیں اس طرح یہ قبیح عمل ہماری عادت نہ بن جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here