ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
کئی سالوں سے شب برا¿ت کی آمد سے قبل شب برا¿ت کا معافی نامہ سوشل میڈیا پر عام ہوتا تھا۔ اس بار کرونہ وائرس کی وجہ سے معافی نامہ اتنا عام نہیں ہوا۔ تاہم پچھلے سال کی نسبت 30 فی صد معافی نامے موصول ہوگئے ہیں۔ میرے محدود مطالعہ میں مجھے کوئی ایسی حدیث یا روایت نہیں مل سکی جس سے اس معافی نامہ کی مذہبی حیثیت کا اندازہ ہو سکے۔ تاہم ہرو ہ رسم جو شرعی نہیں ہوتی ضروری نہیں کہ وہ غیر شرعی ہو۔میرے خیال میں معافی نامہ بھیجنے والے اسے شرعی حکم سمجھ کر نہیں بھیجتے اسلئے اس کے ارسال میں کوئی قباحت نہیں۔اس بار بھی جو معافی نامے موصول ہوئے ان کی عبارات کچھ یوں تھیں۔اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب کے اعمال نامے پیش ہونے ہیں آج تک میری طرف سے جانے انجانے میں کوئی غلطی ، گستاخی ، غیبت ہوئی ہو یا میری کسی بات سے آپ کا دل دکھا ہوتو اللہ کی رضا کے لئے شب برا¿ت سے پہلے مجھے معاف کر دیں۔عموماً ایسے معافی نامے میں دو ہاتھ جڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کبھی یہ لکھا دکھائی دیا کہ 15 شعبان المعظم معافی مانگنے کی رات ہے۔ میں نے سب کو معاف کیا میں خود بھی معافی کا طلبگار ہوں۔یا اللہ! مجھے معاف کر دے۔کچھ لوگ اشعار کی صورت میں معافی مانگتے ہیں اور کچھ نثر کی صورت میں۔کچھ ایسے لکھتے ہیں کہ لوگو! اسی طرح معاف کر دو جیسے اللہ رب العزت سے امید رکھتے ہو کہ وہ تمہیں معاف کر دے گا۔کوئی لکھتا ہے کہ اگر ابلیس کی طرح غلطی ہو جائے تو ابلیس کی طرح دلیر نہیں ہونا چاہئے بلکہ معافی مانگ لینی چاہئے کیونکہ ہم ابن آدم ہیں ابن ابلیس نہیں۔کوئی لکھتا ہے کہا سنا جو بھی ہو معاف کرنا۔جو وعدے کر کے نہ نبھائے ہوں وہ معاف کرنا۔جب کبھی میں نے تم کو ستایا ہو ، رلایا ہو ان سب غلطیوں کو میری نادانی سمجھ کر معاف کرنا۔ مغفرت کی رات آنے والی ہے دعاو¿ں میں یاد رکھنا اور مجھے دل سے معاف کرنا۔اس قسم کی تحریروں سے سوشل میڈیا پ±رہے۔ اس بار کیوں کہ ساری انسانیت کرونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر بےحد پریشان حال ہے۔اس لئے کہ کسی کو معافی نامہ یاد رہا کسی کو یاد نہ رہا۔البتہ معافی ایسے لگتا ہے ان سے مانگی جا رہی ہے جن کا کوئی قصور ہی نہیں کیا اور جن کا قصور کیا ہے ان سے معافی مانگ ہی نہیں رہے۔ معافی والدین سے مانگنی چاہئے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے مانگنی چاہیے۔ بہن بھائیوں سے مانگنی چاہیے۔ رشتہ داروں۔ دوستوں سے مانگنی چاہیے۔ جنکے حق پامال کیے ہیں ان سے معافی مانگنی چاہیے۔بلکہ جنکا واقعا دل دکھایا ہو انسے مانگنی چاہئے۔ جنکی مخالفت کرتے رہے ہوں انسے مانگنی چاہیے۔ مجھے لگتا یہ کاغذی معافی ہے۔ کاغذی پھولوں میں تو خوشبو نہیں ہوتی۔ویسے تو حقوق العباد کی بابت ہمیں ایک دوسرے سے ہمیشہ معافی مانگنی چاہئے۔اس لئے کہ ہم حقوق ادا کرنے میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔خواہ وہ حقو ق اللہ یا حقوق الناس۔حقوق اللہ کی کوتاہی کے لئے توبہ کا سفینہ استعمال کرنا چاہئے اور حقوق العباد کی کوتاہی کے لئے معافی کا خزین استعمال کرنا چاہئے۔ اس سال شب برا¿ت جن حالات و واقعات کے پس منظر میں آ رہی ہے ہمیں حقو ق اللہ اور حقو ق العباد کی بابت معافی نامہ پیش کرنا چاہئے۔
اس لئے کہ ایسے لگتا ہے اللہ ہم پر ناراض ہو گیا ہے۔اگر سارے انسان مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ نامہ بھیجنے لگ جائیں تو یقینا راضی ہو جائے گا۔شب برا¿ت سے قبل ہم اس نیت سے ایک دوسرے کو معاف کر دیں کہ اس کے عوض اللہ ہمیں معاف کر دے گااور ایک دوسرے سے معافی مانگ لیں۔تا کہ غضب الہیٰ ختم ہو جائے۔مگر توبہ یا معافی ازراہ مذاق نہیں ہونی چائیے۔
جیسا کہ حد یث شریف میں آیا ہےکہ توبہ کا حقیقی مفہوم یہ کہ انسان معافی کے بعد گناہوں کی وادی میں نہ جائے۔ جیسے دودھ جانور کی طرف واپس نہیں جاتا۔
حضرت علی? نے ارشاد فرمایا: کہ توبہ کی 6 شرائط ہیں:
1: ماضی پر ندامت
2: آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد
3: مخلوق کے حقوق کا حق ادا کرنا
4: ہر ضائع شدہ فریضہ کا اداکرنا
5:جو گوشت معصیت سے بڑا ہے اسے اطاعت سے ختم کرنا
6:جسم کو جتنی گناہ کی حلاوت چکھائی اتنی اطاعت کی کڑواہت چکھانا
یہ تو توبہ کی کچھ شرائط ہیں۔جہاں تک بندوں سے معافی مانگنے کا تعلق ہے اگر دوبارہ اذیت دینے کا ارادہ ہے تو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ایک دوسرے کو اذیت دینا نقصان دنیا اور آخرت میں خسارے کا سبب ہے۔عذاب قبر اذیت کی وجہ سے بہت بڑھ جاتاہے۔کورونا کی آفت کے باجود ہمارے بہت سارے حلقہ احباب نے حقوق العباد میں پامالی کی بابت اپنی عادات تبدیل نہیں کیں۔بے پرَکی اڑانا، جھوٹے الزامات،حسد،نخوت، غرور، تکبر، خود پسندی،تہمتیں، غیبتیں، لیگ پولنگ،نیچا دکھانا،بدنام کرنا، گالی گلوچ، بازاری زبان، کردار کشی،اور شخصیت کوبی ہمارے معاشرے میں انسانیت کی عادت ثانیہ بن چکی ہے۔
بدگوئی، بدکلامی، بدطینتی ، بدتمیزی، ریاکاری، خود ثنائی، تعصب،اور بد خوئی نے ہمارے معاشرے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔موت کے منہ میں جانے والا بھی انتقام پروری سے باز نہیں آ رہا۔جسے لقم? اجل بننے کا یقین ہے وہ بھی ذخیرہ اندوزی سے پرہیز نہیں کر رہا۔
کورونا وائرس کے بدترین حملے کے باوجود ہمارے کرم فرمافن بنا رہے ہیں۔تمسخر اڑا رہے ہیں۔ جعلی خبریں اڑا رہے ہیں۔ بلاوجہ لوگوں کو مایوس کر رہے ہیں۔ نیکی کر میڈیا میں ڈال رہے ہیں۔اور دکھلاوے کی ہوس سے اعمال ضائع کر رہے ہیں۔
قارئین!
معافی ایک رات کےلئے نہیں ہوتی ہے بلکہ زندگی بھر کے لئے ہونی چاہئے۔کورونا کو عذاب سمجھ کر یا امتحان سمجھ کر صدق دل سے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لیں۔اور صدق نیت سے لوگوں سے معافی مانگ لیں اور لوگوں کو معاف کر دیں۔یہ وہ وظیفہ ہے جو ہم سے عذاب یا امتحان ٹلوا سکتا ہے۔
حقیقت پسند بنیئے۔ معافی سوشل میڈیا سے مانگ رہے جبکہ ان کو معاف کیجئے گا نہیں کہہ رہے جنکی معافی سے عرش سے معافی آئیگی۔ بچوں کے پھل نما کھلونوں سے غذائیت نہیں ملتی۔اور دیواروں پر بنی تصویریں حقیقت نہیں ہوتیں۔ گفتار کے نہیں کردار کے غازی بنیں
یا اللہ تجھے اپنے برگزیدہ پیاروں کا واسطہ مجھے اور ہر انسان کو توب?النصوحا کی توفیق عطا فرمااور دل سے دوسروں سے معافی مانگنے اور دوسروں کو معاف کرنے کی صلاحیت دے۔
قارئین!
شاید شب برا¿ت سے قبل اس کارِ خیر سے بارگاہ ایزدی میں ہماری رحم کی اپیل منظور ہو جائے۔