جو تم پیزار!!!

0
773
انصار الرحمن
انصار الرحمن

 

انصار الرحمن

انسانی زندگی میں دو باتوں کی بہت اہمیت ہے۔ سکون‘ صحت۔ سکون کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے گھر میں جہاں ہم اپنا دن رات گزارتے ہیں سکون ہو۔ ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں جو بھی افراد ہیں ان کے درمیان ہمدردی‘ شرافت‘ اپنائیت اور خیر خواہی کے جذبات بھرپور طریقہ پر موجود ہوں۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوں۔ چھوٹے اور بڑے دوسروں کے حقوق اور فرائض سے بخوبی واقف ہوں۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ بھی کرتے ہوں۔ ہمارے ملنے جلنے والے سب کے حسن سلوک کے معترف ہوں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کے لبوں پر مسکراہٹیں رقصاں ہو جاتی ہوں اور آنکھوں میں خوشی اور مسرت کے جذبات نظر آتے ہوں۔ اگر وہ بات کریں تو پھولوں کی لڑیاں گرنے لگتی ہوں۔اسلامی تعلیم کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسا معاشرہ عمل میں آئے جہاں کے لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ہمدرد ہوں اور ہر قدم پر ان جذبات اور احساسات کو اپنائے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق تقریباً 14 ہزار ہے اس میں افضل و برتر انسان پھر جنات ہیں۔ ان کو زندگی اور موت سے نوازا ہے کہ وہ اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنائیں اور زندگی کا ہر ہر لمحہ پیغمبروں اور رسولوں کے بتائے ہوئے ارشادات اور آسمانی کتابوں کی رہنمائی کے مطابق گزاریں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم کو بھیج کر اور آپ پر قرآن شریف نازل فرما کر اپنے احکامات کی تفصیل اور تکمیل کر دی۔ حق تعالیٰ اپنی مخلوق کے ہر ایک فرد اس کے ماں باپ سے ستر درجہ سے زیادہ مہربان ہے۔ ان کی محبت اور پیار کا تقاضہ ہے کہ ان کے احکامات پر بلاچون و چراں پوری سنجیدگی اور توجہ سے عمل کیا جائے۔ دین اسلام کے تمام احکامات انسانی فطرت کے مطابق ہیں اور ان میں سے کوئی حکم ہرگز ایسا نہیں ہے جس پر عمل کرنا کسی بھی فرد کیلئے ذرا سا بھی مشکل ہو۔ بس توجہ‘ فکر اور عمل کی ضرورت ہے۔ہماری زندگیوں میں سکون‘ چین‘ راحت اور اطمینان کا آغاز ہمارے اپنے گھر سے ہوتا ہے اگر ہم ایک دوسرے کی عزت کریں‘ احترام کریں‘ خیال رکھیں اور ہمارے کسی بھی قول اور فعل سے عمل سے دوسرے کی ذلت نہ ہو‘ ہمارا رویہ بدتمیزی اور گستاخی سے دور ہو تو ہمارا وقت خوشیوں اور مسرتوں کے ساتھ گزرے گا۔ میاں بیوی میں سے اگر کوئی فرد ہر وقت تھانیداری کرتا رہے گا تو ایسا گھر جنت نہیں جہنم بن جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہنا‘ بات بات پر کاٹنے لگنا بہت ہی تکلیف دہ عمل ہے۔ اس کے برعکس اگر اخلاق ہمدردی‘ شرافت‘ احترام اور اپنائیت کا دور دورہ ہو تو پھر ان کے پیچھے بھی مہذب اور بااخلاق ہوں گے ورنہ پوری نسل تباہ و برباد ہوجائے گی اور غصہ اور بدتمیزیوں کی نظر ہوجائے گی۔ مرد اور عورت کا جب ملاپ ہوتا ہے تو اولاد جنم لیتی ہے۔ اولاد کی تربیت بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ بچہ جب چھ مہینے کا ہوتا ہے تو وہ بیٹھنے لگتا ہے۔ ماں کے اشارے سمجھنے لگتا ہے۔ مائیں عام طور پر اپنے بچوں کا زیادہ خیال رکھتی ہیں (جاری ہے)
جو توجہ اور فکر ان کو ہوتی ہے وہ مردوں کے حصے میں نہیں آتی۔ اگر اس کی کم عمری میں وہ جھگڑے لڑائیاں اور چیخ و پکار دیکھیں گے تو ان کی نوعمری کا زمانہ تباہی و بربادی کی نظر ہوجائے گا۔ پوری نسل کو مہذب باخلاق اور مہذب بنانا بچہ کی ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ آجکل کے دور(جاری ہے)
میں حالات کے تقاضوں کے پیش نظر خواتین کو بچوں کی نگرانی اور خیال بھی کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے کام کاج بھی ان کے ذمہ ہوتے ہیں اور اکثر جگہورں پر جاب بھی کرنی پڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر فرمایا کہ صبر کرو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ آجکل کا ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ اکثر افراد میں سے صبر اور برداشت کے جذبات ہی ختم ہوگئے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں وہ فوراً ہوجائے۔ اس پر عمل میں بالکل دیر نہ کی جائے۔ اس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گھروں میں آئے دن جھگڑے ہوتے ہیں‘ لڑائیاں ہوتی ہیں اور گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ غصہ اور نفرتوں کا شکار ہونے والے افراد کی اولاد تو تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ہم نے اکثر جمعہ کی نماز کے موقع پر مسجد میں اعلان سنا ہے کہ بچے موجود ہیں اگر کوئی ان کو گود لینا چاہے‘ اپنا بنانا تو ہم سے رابطہ کرلے۔ زندگی گزارنے کیلئے ہمت‘ حوصلہ اور صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی عمر اگر زیادہ ہوجائے‘ بڑھاپا شروع ہوجائے تو ان کو زیادہ صبر اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اکثر لوگوں کی جسمانی صلاحیتیں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ بعض کی تو یاد داشت ہی بہت متاثر ہوتی ہے۔ اس لئے کوشش یہ کریں کہ گھر کا ماحول بگڑنے نہ پائے۔ ہمارے علم میں چند خاندان ایسے ہیں کہ وقت کے ساتھ اچھا ماحول تکلیفوں اور شکایتوں کا ماحول بنتا چلا گیا اور آج میاں صاحبان پاکستان میں رہ رہے ہیں جبکہ ان کی زوج محترمہ امریکہ میں اپنی اولاد کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
صحت کا کوئی بھی مسئلہ ہو فوری طور پر توجہ دینی چاہئے۔ بعض لوگوں کی تکلیف جب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو ان کو ہوش آتا ہے ورنہ اس سے پہلے وہ بہت مصروف تھے۔ وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ وہ یاد ہی نہیں رہتا تھا کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ اگر نزلہ زکام ہو تو بھی فوراً اس کا علاج ہونا چاہئے۔ بہتر ہوگا اگر اس کا دیسی علاج کیا جائے۔ جوشاندہ چند دن پینے سے اس تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ گیس ٹربل ہو یا معدہ کی کوئی بھی تکلیف ہو فوری طور رپ اس کا علاج کرنا چاہئے۔ عام طور پر اکثر لوگوں کو بلڈ پریشر ہوجاتا ہے‘ لو یا ہائی۔ ڈاکٹری دواﺅں سے بلڈ پریشر کنٹرول ہجاتا ہے‘ ختم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں اسرول بوٹی سے تیار کردہ کیپسول چندن کے نام سے مل جاتے ہیں۔ وہ بلڈ پریشر کا کامیاب علاج ہیں۔ چند دن استعمال کرنے سے بلڈ پریشر جیسی بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔ اگر آدھے سر میں درد ہو تو دونوں نتھنوں میں شہد کا ایک ایک قطرہ ڈالنے سے درد ختم ہوجاتا ہے۔ اگر نیند نہیں آرہی تو دونوں پاﺅں کے تلوں میں زیتون کے تیل کی مالش کرنے سے پرسکون نیند آ جاتی ہے۔ اگر سوتے وقت سورہ کہف کی آخری تین آیتیں ڑھ کر دعا کرلی جائے تو جس وقت اٹھنے کا ارادہ ہوگا انشاءاللہ آنکھ ضرور کھل جائے گی۔ کیلسٹرول ہائی رہنے لگے تو چند دن قندھاری انار کا جوس پینے سے نارمل ہوجاتا ہے۔ اکثر لوگ مرد و عورت اور بچے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہم کو ڈپریشن ہوگیا ہے۔ ڈپریشن خودکشی کا دوسرا نام ہے۔ اس سے بہت دور رہنا چاہئے۔ ڈاکٹری دوائیں کھانے سے ڈپریشن نہیں جاتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہمارا جو بھی کام ہے اس کیلئے پوری صلاحیتیں بروئے کار لا کر کام کریں۔ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔ انشاءاللہ ضرور کامیابی ہوگی۔ کسی بھی چیز کے بارے میں بار بار سوچنے سے معدہ متاثر ہوتا ہے۔ بھوک نہیں لگتی۔ نیند متاثر ہوجاتی ہے۔ اس لئے ڈپریشن سے خود کو بچائیں۔ اکثر لوگوں کو نیند ہی نہیں آتی۔ سونے کیلئے لیٹیں تو گھنٹوں جاگتے رہتے ہیں۔ نیند کی گولیاں کھا کر سونا معمول بن گیا ہے۔ دوائیں کھاتے رہنا‘ ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگتے رہنا‘ ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہنا‘ کیا زندگی ہے۔ ڈاکٹری دواﺅں سے فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن پھر اس کے آفٹر افیکٹ کیا کیا ہوتے ہیں اس پر کبھی کسی نے غور کیا ہے۔ نیند نہ آئے تو دونوں پاﺅں کے تلوﺅں پر زیتون کے تیل کی مالش کرلیں‘ پرسکون نیند آئے گی۔ فجر کی نماز وقت پر پڑھیں بڑی خیر و برکت کا وقت ہوتا ہے۔ اس وقت تھوڑی سی تلاوت قرآن شریف کی بھی کرلیا کریں۔
مسلمانوں نے سپین پر تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی۔ آخری دور میں قوم تفرقوں اور مسلکوں میں تقسیم ہوگئی۔ آج وہاں یہ عالم ہے کہ قرطبہ کی جامع مسجد میں اگر کوی شخص دو رعت نفل ادا کرنا چاہے تو اس کو اس کی اجازت نہیں ملتی۔ اس لئے کہ مسجد عجائب گھر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ستر‘ بہتر سال کوئی زیادہ نہیں ہوتے لیکن اس عرصہ میں پاکستانی معاشرہ جس طرح تباہ و برباد ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ جو اسلامی ریاست ر مضان کی ستائیسویں شب کو وجود میں آئی اور جس کے عظیم ترین قائد محمد علی جناح تھے وہاں اب خوبیاں اور بھلائیاں چند ایک ہی نظر آتی ہیں جہاں پہلے لوگ صبح جلدی اٹھتے تھے‘ فجر کی نماز پڑھتے تھے‘ قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام اور اپنائیت سے بات کرتے تھے‘ ملتے جلتے تھے۔ ناجائز اور حرام کاموں سے دور رہتے تھے وہاں اب کیا کچھ ہورہا ہے۔ اس کو دیکھ کر بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ وہاں اب ہر شخص کا مطمع نظر صرف پیسہ ہی ہوکر رہ گیا ہے۔ جھوٹ‘ بے ایمانی‘ ملاوت‘ بردہ فروشی‘ بے شرمی‘ بے حیائی کا گھر گھر دور دورہ ہوگیا ہے۔ تباہی‘ بربادی کے دور کا آغاز اسی دن ہوگیا تھا جب پاکستان میں ٹی وی کا آغاز ہوا تھا۔ ٹی وی کے اکثر اینکرز نے بے شرمی اور بے حیائی کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں اس کی مثال دوسرے ملکوں میں مشکل سے ملے گی۔ رمضان کے مہینوں میں ج بیہودہ پروگرام ہوتے ہیں اور رات گئے تک شیطانی کاموں میں جو عوام مصروف رہتی ہے۔ وہ سب کو معلوم ہے۔ جھوٹ گھر گھر رچ بس گیا ہے۔ یہ احساس ہی ختم ہوگیا ہے کہ جھوٹ بولنا کتنا بڑا گناہ ہے۔ حضرت محمد نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی حفاظت کیلئے فرشتے رکھے ہیں جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے حفاظتی فرشتے کئی کئی میل دور چلے جاتے ہیں۔ وعدہ خلافی سے منع کیا گیا ہے لیکن اس پر عمل کون کرتا ہے۔ ملاوٹ بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ جو قوم پٹرول میں ملاوٹ کرتی ہو جعلی دوائیں بناتی ہو‘ اس کا کیا بھروسہ کہ جو گوشت لوگ کھاتے ہیں وہ گائے بکری کا ہے یا گدھے‘ کتے اور سور کا ہے۔ حضور نے ارشاد فرمایا کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے۔ کون سی جگہ ہے کون سا محکمہ ہے جہاں رشوت نہیں چلتی۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کو جو خون دیا جاتا ہے اس میں بھی ملاوٹ ہونے لگی ہے اور تو اور گندے ناپاک آلودہ پانی میں سبزیاں اگائی جاتی ہیں اور سرعام فروخت کی جاتی ہیں۔ ان کو کھانے والوں کا کیا حشر ہوگا۔ کبھی کسی نے یہ سوچا ہے۔ پوری قوم نفرتوں کا شکار ہوچکی ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی بے وقوفی کی وجہ سے توہین رسالت کرتا ہے تو اس کو جان سے مارنے کیلئے سب تیار ہوجاتے ہیں لیکن حضور کے ارشادات پر عمل کرنے کیلئے کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ ہر طرف لوٹ مچی ہوئی ہے۔ حسین حقانی‘ پرویز اشرف‘ آصف زرداری اور نواز شریف کا کام اب کیا رہ گیا ہے۔ لوٹ کھسوٹ‘ ایان علی کو کون نہایں جانتا۔ باہر کے ملوں میں پاکستان کی جو عزت و وقار ہے اس کا اندازہ دوسرے ملکوں کے ایئرپورٹس پر پہنچ کر ہوتا ہے جب پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو الگ کھڑا کردیا جاتا ہے اور نہ صرف ان کے سامان کی بخوبی تلاشی لی جاتی ہے بلکہ ان کا جوڑ جوڑ بھی سکرین پر چیک کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں پوچھا جاتا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے جواب ملتا تھا لا الہ اللہ۔ یہ ہے آجکل کا پاکستان۔
ہر شخص جو اس دنیا میں آیا ہے‘ پیدا ہوا ہے‘ مرد ہو یا عورت‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ غریب ہو یا امیر‘ صحت مند ہو یا بیمار اس کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہوتا ہے۔ اس کا انتقال ہوجاتا ہے۔ دنیا جب سے آباد ہوئی ہے کروڑوں سال ہوگئے ہوں یا اربوں سال تمام انسانوں کو اور جنات کو ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہوگا۔ وہ دن پچاس ہزار برس کے برابر ہوگا اور اس دن یہ ندی نالے‘ پہاڑ کچھ بھی نہیں ہوں گے اور اس دن ان کو اپنے اعمال زندگی کیسے گزاری‘ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق یا اس کے برعکس‘ اس کی جوابدہی کرنی ہوگی۔ اس دن وہ بول نہایں سکیں گے۔ اس کے ہاتھ میں نامہ اعمال ہوگا جس میں ان کی پیدائش سے لے کر وفات تک ایک ایک لمحہ کی رپورٹ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرشتوں نے کی ہوگی جن کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو اچھے برے فائدہ مند اور نقصان دہ چیز کے احساس سے نوازا ہے۔ عقل سمجھ دی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم کون کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضرت محمد ک ارشادات کے خلاف کررہے ہیں۔ ہم ان سے توبہ کریں اور آئندہ زندگی اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کی طرح گزاریں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی رحمت کے دروازے ہمیشہ کیلئے کھلے رہتے ہیں اور کبھی بند نہیں ہوتے۔ ہم کو جو بھی وقت قدرت کی طرف سے مل گیا ہے اس کی قدر کریں اور اپنی زندگیوں کو حضور اکرم کے ارشادات کے مطابق ڈھال لیں۔
آخر میں اپنے بہن بھائیوں اور بہنوں سے ایک گزارش کرنی ہے اس کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھیں اور سمجھیں۔ ہمارے جانے والے‘ ملنے والے اور رشتہ دار جو اس دنیا سے جا چکے ہیں جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ہم ان کو وقتاً فوقتاً ایصال ثواب کرتے رہیں۔ اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم کو جو بھی قرآن شریف کی سورتیں‘ آیتیں یا اسمائے الٰہی یاد ہوں‘ ہم ان کا بار بار ورد کریں اور اللہ تعالیٰ سے التجا کریں کہ اس کا ایصال ان کو پہنچا دیں۔ یہ کام ہم روزانہ کرلیا کریں تو بہت ضروری ہے۔ ہماری کتاب سکون اور صحت کا مطالعہ کریں‘ اس سے معلومات میں بہت اضافہ ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here