خالد ایچ لودھی
محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کو ہم سے بچھڑے دو سال کاعرصہ گزر چکا ہے اس المناک سانحے کی تحقیقات اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سپرد ہوچکی ہے اس تحقیقات میں اتنی سستی اور لاپرواہی حیران کن ہے۔
اب تو ”بھٹوز“ کا خون پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے اس وطن عزیز کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا اب اس خون کا حساب عوام کو لینا چاہئے۔قدرت کانظام ہے کہ قتل کبھی نہ کبھی ضرور بے نقاب ہوتا ہے اور قتل کرنے والے اور قتل کروانے والے دونوں ہی یقیناً ایک نہ ایک دن بے نقاب ضرور ہوتے ہیں۔آخر کار اس طرح کے قتل کرنے اور کروانے والوں کے نام خلق خدا کی زبان پر بے اختیار آہی جاتے ہیں اور پھر ان پر یقین بھی کرنا پڑ جاتا ہے حتیٰ کہ پھر خلق خدا کی آواز انصاف کے ایوانوں میں گونج گونج کرپکاری ہے کہ ناحق خون کا حساب کیا جائے!۔آج خلق خدا خاموش ہے اور بے بس ہے کیونکہ بعض طاقتیں اس قتل کو جس انداز میں دبانے کی کوشش کر رہی ہیں دو روز روشن کی طرح عیاں ہے اب اس موقع پر پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور اس قتل میں جس قدر بھی مضبوط اور طاقت ور ہاتھ ملوث ہوں آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں ان کو ڈھونڈ نکالنا تحقیقاتی اداروں کے لئے ہرگز ناممکن نہیں ہے۔
وزارت داخلہ کے سابق ترجمان(ریٹائرڈ)بریگیڈئر چیمہ جیسے لوگ آج بھی پاکستان میں موجود ہیں ان سے صرف یہ دریافت کرلیا جائے کہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے قتل کے فوری بعد بیت اللہ محسود مرحوم یا کسی اور کے ٹیپ شدہ گفتگو کہاں سے اورپھر کس طرح منظر عام پر لائے گئے۔یکدم یہاعلان کر دینا کہ محترمہ کی شہادت گولی لگنے سے نہیں ہوئی بلکہ گاڑی کا کوئی لیور لگنے سے ہوئی ہے۔راولپنڈی کے ہسپتال کا عملہ اور ڈاکٹرز بھی موجود ہیں کیا ان سے اس ضمن میں آج تک کوئی حتمی رپورٹ لی گئی ہے تو پھر وہ باضابطہ طور پر عام کیوں نہیںکی جاتی؟لیاقت باغ کے باہر وقوعہ پر اس المناک سانحے کے تمام نشانات فوری طورپر کس کے حکم کے تحت صاف کروائے گئے تھے؟محترمہ کا تابوت اتنی عجلت میں جلدی جلدی لاڑکانہ روانہ کروا دیا گیا حالانکہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی انتہائی اہم شخصیت تھیں ان کی سرکاری طور پر اسلام آباد میں نماز جنازہ ادا نہ کی جاسکی اور پھر ان کے جنازے اور تدفین کے موقع پر کسی اہم عالمی اور ملکی شخصیات کو ان کے آبائی گاﺅں جانے سے اس بنا پر روکا گیا کہ وہاں امن وامان کا کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے مگر یہ سراسر غلط تاثر تھا اور عالمی میڈیا اس ضمن میں اپنے ردعمل کا اظہار کر چکا ہے۔یہ وہ سوالات ہیں کہ ایک عام شہری جن کے دل میں پاکستان کا درد ہے وہ اپنے اندر طرح طرح کے خدشات لئے ہوئے ہے ان تمام حقائق کی روشنی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب افتخار احمد چودھری صاحب سے پوری قوم یہ توقع کرےگی کہ اب اس ضمن میں ازخود کوئی غیر جانبدار بنچ تشکیل دے کر اس اہم مقدمے کا آغاز کیا جائے۔
وقت بڑی تیزی سے گزرتا جارہا ہے جوں جوں یہ مقدمہ اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سپرد رہے گا اس کے ساتھ ہی ملک کے اندر حسب عادت کوئی نہ کوئی حتمی رائے میڈیا میں فلوٹ کردی جائے گی۔پاکستان میں اس وقت بے شمار مافیا گروپس اور بعض بین الاقوامی ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں جو کہ اپنے اپنے مفادات اور خاص ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہیں ان کے پاس بے پناہ سرمایہ اور وسائل ہیں اور یہ دور میڈیا کا ہے۔میڈیا میں کسی بھی خبر کو عوام کی کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر فلوٹ کروا دیا جاتا ہے۔جس قدر اس مقدمے میں تاخیر ہوگی یہ مقدمہ بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مقدمہ قتل کی طرح مکمل طور پر ساکت ہو کر رہ جائےگا۔
محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے اس مقدمہ قتل کی اہمیت اس وجہ سے بھی انتہائی اہمی کی حامل ہے کہ اس میں اندرونی اور بیرونی دونوں عناصر کے علاوہ دیگر اہم عناصر کے ملوث ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔لہذا جب تک محترمہ کے کسی انتہائی قریبی ساتھی یا گارڈز کارروائی میں ملوث نہ ہوں تو یہ کارروائی ممکن نہ تھی کیونکہ خالد شہنشاہ(گارڈ) کاقتل بھی بے پناہ شکوک وشبہات پیدا کر گیا ہے خالد شہنشاہ کا قتل محترمہ کے قتل کے سلسلے میں تمام ثبوت غائب کرنے کی خفیہ طور پر کارروائی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کے قتل کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سرکاری طور پر میڈیا کو یہ لائن دی تھی کہ اس قتل میں بیت اللہ محسود مرحوم ملوث ہے مگر دوسری جانب بیت اللہ محسود گروپ بار بار اس کی تردید کرتا رہا ہے۔اگر واقعی یہ گروپ عملی طور پر اس المناک سانحہ کا ذمہ دار ہے تو پھر وہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جن کی کڑیاں ٹی وی کے کیمرے سے اوجھل رہی ہیں اور آج تک کوئی واضح اور باضابطہ طور پر شناخت نہیں ہوسکی ہے۔محض قیاس آرائیوں اور بعض خفیہ اداروں کی رپورٹ کو ہی بار بار عام کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے موجودہ حالات میں ”بھٹوز“کا خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ آج کوئی تو ہو جو ہمارے خون کا حساب لے۔پاکستانی قوم ابھی اتنی بے بس اور بے حسی نہیں ہوئی ہے وہ آج یہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان کی سابق خاتون اول بیگم نصرت بھٹو خداوند قدوس کے فضل سے اس دنیا میں موجود ہیں مگر وہ دنیا کے تمام ہنگاموں سے دور اپنی ذات میں مگن زندگی کے آخری ایام تنہائی میں گزار رہی ہیں۔
نجانے وہ دل ہی دل میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی راہ تک رہی ہوں گی اور شاید وہ اب ذوالفقار علی بھٹو شاہنواز بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کی جدائی برداشت کرتے کرتے محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کی جدائی کو بھی برداشت کرنے کی عادی ہوگئی ہوں گی۔
قدرت کا نظام بھی بڑا ہی نرالا ہے کہ آج حکومت وقت”بھٹوازم“ کا پرچار تو خوب کرتی ہے مگر”بھٹوز“ کے خون سے بے وفائی کی انتہا کر دی ہے۔
بھٹوز کے خون کے عوض حکمرانی میں ان کے خون سے انصاف نہ کیا گیا تو پھر موجودہ حکمرانوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرےگی۔
خدارا ”بھٹوز“ کے خون کو اس طرح رائیگاں نہ جانے دیں۔حکومت میں رہ کر کم ازکم ان کے خون کا حق تو ادا کریں۔قانون حکومت وزارت اور انتظامیہ اور پھر تمام وسائل آپ کے پاس ہیں کس وقت کا انتظار ہے؟
کیا اس خون کے حساب کے لئے کسی اور حکومت کا انتظار کیا جائے گا یا یہ حکومت بے بس ہے اور یا پھر یہ کسی ڈیل کا حصہ ہے کہ قوم کو ”بھٹوز“ کے خون کا حساب نہ لینے دیا جائے۔ذوالفقار علی بھٹو شہید کا گلدستہ بےنظیر اجازنے والے کہیں خود ہماری اپنی صفوں میں تو موجود نہیں؟
راز دنیا پہ کھلا ہے یہ تیرے قتل کے بعد
لوگ مر کے بھی رہا کرتے ہیں زندہ کیسے؟
کوئی کتنا ہے ترے قتل کی سازش میں شریک
اک نہ اک روز نقاب اٹھے گا ہر چہرے سے