ریاست ہو گی ماں کے جیسی!!!

0
203
شبیر گُل

شبیر گُل

ریاست ماں ہوتی ہے ہر ریاست کے لئے یہ تصور نہیں بلکہ حقیقت ہے جسطرح ایک ماں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی پرورش بلا تفریق کرے اسی طرح ریاست بھی کسی تفریق اور فرق کے بغیر بچوں یعنی اپنے عوام کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہوتی ہے، ماں ہونے کی یہ ذمہ داری بلاشبہ ریاست نیویارک نے COVID-19 کے درمیان بخوبی نبھائی ہے،گورنر نیویارک اینڈریو کومو نے جسطرح خوف و تشویش کا شکار نیویارک کے باسیوں کو کورونا وائرس کے دوران تسلی دی انہیں سماجی رابطہ قائم رکھنے کی تلقین کی ماسک پہننے اور دیگر حفاظتی اقدامات کا پابند بنایا وہ قابل ستائش ہے. پیر 22 جون کا دن لاکہوں نیویارکرز کے لئے ایک اچھا دن تھا جب نیویارک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے دوسرے فیز یا مرحلہ کا آغاز ہوا. گورنر نیویارک نے مسلسل 111 دن یومیہ بریفنگ دی اور نیویارکرز کو کورونا کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا انہیں بتاتے رہے کہ ریاست کیا کررہی ہے اور لوگوں کو کیا کرنا چائیے، کہتے ہیں اچھے لیڈر کی جانچ بحران سے ہوتی ہے اور گورنر کومو نے اس بحرانی دور میں جس طرح مین آف دی کرائسز کا رول نبھایا یقیناً مجھ سمیت تمام نیویارکرز کو ان پر فخر ہے،گورنر کومو کی طرح نیویارک سٹی کے مئیر بل ڈی بلازیو بھی تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے نیویارک کے باسیوں کو کسی بھی لمحہ تنہا نہیں چھوڑا وہ فرنٹ لائن پہ رہے اور کورونا کے دوران آہنی چٹان کی طرح ڈٹے رہے اور عظیم شہر کو مایوسیوں کے بھنور سے نکالنے میں گورنر، فرسٹ رسپانڈرز اور دیگر کے شانہ بشانہ چل کے کیپٹل آف ورلڈ کو تاریکیوں میں جانے سے بچایا۔ اپنی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالکر جن لوگوں نے انسانیت کی خدمت میں اپنا وقت، مال اور توانائیاں صرف کیں، قابل ستائش ہیں۔سٹی اور اسٹیٹ کیطرف سے فری ماسک، فری ہینڈ سینیٹائز کی سہولت ہر شہری کو فراہم کی گئی ،مفت کھانے کی فراہمی کویقینی بنایا گیا،سٹی اور اسٹیٹ لیول پر مفت حلال کھانے کی ترسیل کو آسان بنایا گیا،پورے رمضان المبارک میں سٹی کیطرف سے حلال فوڈ کی فراہمی لائق تحسین ہے۔ اسی کو انسانیت کہتے ہیں جو لیڈر شپ مشکل حالات میں عوام کی مدد کئے فرنٹ لائن پر کھڑی ہو ، ایسی لیڈرشپ سے اللہ بھی راضی ہوتا ہے۔مئیر آف نیویارک کا کرونا وائرس میں ایمرجنسی ریلیف کے لئے اکنا ریلیف پراعتماد سے مسلمانوں کی شان میں اضافہ ہوا ہے۔اکنا ریلیف نے بلا رنگ و نسل انسانی خدمت کا فریضہ بخیروخوبی انجام دیا۔امریکی لیڈرشپ بلا رنگ ونسل اپنی قوم سے پیار کرتی ہے، stimulates چیک ہوں یا ٹیکس ریلیف۔ بجلی کے بل ہوں یا پانی کے بل ،مشکل وقت میں سٹی اور اسٹیٹ اپنی عوام کے ساتھ کھڑی پائی گئی۔ ان اقوام کی ترقی کا یہی راز ہے کہ اپنی رعایاخیال رکھتے ہیں۔اللہ تعالی ان سے خوش ہیں،ہم کلمہ گو مسلمان ہونے کے باوجود انسانوں کی کھال اتارنے میں مصروف رہے ،کھانے پینے کی اشیائ سے لیکر ادویات تک ہر چیز کی قیمت کئی گنا مہنگی کر دی گئی،اللہ سے اجتماعی توبہ کریں اللہ ہم سے ناراض ہیں۔اجتماعی توبہ کی ضرورت ہے،اللہ کو راضی کرنے کی ضرورت ہے،وہ جلدی مان جاتا ہے۔ پاکستان میں کرونا کو مذاق سمجھا گیا۔ جس نے گھروں میں قیامت بپا کردی، پورے پورے محلے اور گھروں کے گھر اس وباء کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایک ایک گھر سے کئی جنازے ا±ٹھے،حکومت نے سمارٹ، شارٹ ،لمیٹیڈ اور سلیکٹڈ علاقوں میں لاک ڈاو¿ن کیا جس نے عوام کو کنفیوز کیا۔ حکمرانوں کی مبہم پالیسی نے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔اس نازک وقت میں وزراءکی چرب زبانی نے اپوزیشن اور حکومت میں میدان جنگ کا سماں پیدا کردیا ہے۔ وزراءکی آپس میں گھمسان کی جنگ ہے۔ سلیکٹڈ اور غیر سلیکٹڈ آپس میں الجھ رہے ہیں۔ سلیکٹڈ غیر سلیکٹڈ وزیروں اور مشیروں سے نالاں ہیں۔موجودہ سیٹ اپ گرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک سلیکٹڈ اور دوسرا ہر شعبہ میں ناکامی نے سلیکٹروں کو بھی مایوس کردیا ہے۔ سلیکٹروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ الیکشنز میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اگر گند صاف ہی کرنا ہے تو آئینی دفعات 62,63 کو بحال کروائیں۔کوئی شخص اسکو وایلیٹ کرے تو ا±سے سخت سزا دی جائے۔سلیکٹرز کو کرونا کی ناگہانی آفت کا ادراک کرنا چاہئے۔ابھی بھی وقت ہے کہ پورے پاکستان میں لاک ڈاو¿ن کرکے جانوں کے ضیاع کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔گزشتہ دنوں میرے والد محترم اور میرا نوجوان بھانجا اس وباءکا شکار ہوئے۔ میرے والد گھر سے جوان بچے کی موت برداشت نہ کرپائے چند دنوں میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ میرے سر سے میرے والد محترم کا سایہ ا±ٹھ گیا۔ گھر سے نوجوان چلا گیا۔ میرا گھر پاکستان اور پھر پردیس میں خالی محسوس ہوتا ہے۔ میں نے والد محترم کی وفات کے بعد محسوس کیا کہ گھروں میں برکت اور رحمت انہی ہستیوں کی وجہ سے ہے۔
والد صاحب کی وفات نے مجھے تنہا کردیا ہے،والد مغفور کو کال کرنے کا انتظار رہتا تھا جو مجھے بہت سکون اور لذت فراہم کرتا تھا، میں ا±س انتظار اور آس سے محروم ہو گیا ہوں۔میں نے گزشتہ تین دن میں اپنے ابا جان کی شخصیت پر کالم لکھنے کی کئی بار کوشش کی لیکن آنسووں کی جھڑیوں سے قلم کو کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کوئی لمحہ ایسا گزرا ہو جب میں نے ان کی کمی محسوس نہ کی ہو، میں انکی موت کے بعد ٹوٹ گیا ہوں، اپنی آپکو بہت کمزور محسوس کرتا ہوں۔والدین کے ہونے سے گھروں میں بہار ہوا کرتی ہے۔ باپ سورج کی مانند ہے جو سب کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ا±سکی تپش اور روشنی سے زندگی کا نظام رواں رہتا ہے۔
باپ گھر کا درخت ہوتے ہیں ، اللہ بارک سب کے ماں باپ کو اس وباءسے محفوظ رکھے، ہمارے بیسیوں دوستوں کے گھروں میں یہ قیامت داخل ہو چکی ہے جس سے کئی اموات ہو چکی ہیں۔ اللہ کی ناراضگی نے ہم پر مسجدوں کے دروازے بند کردئیے ہیں،اللہ رب العزت جب عبادت کی توفیق چھین لیں تو سمجھئے کہ مالک ناراض ہے۔
چار ماہ سے مسجدیں بند ، کاروبار بند، لوگ گھروں میں مقید ، ہر دوسرا گھر قیامت کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ اللہ کی ناراضگی ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میرا جسم میری مرضی ، ہم نے ان ناہنجاروں کو روکا نہیں تھا، جسکی وجہ سے اللہ ہم سے ناراض ہیں۔یہ لوگ آجکل کسی سٹور میں ماسک کے بغیر گ±ھس نہیں سکتے، جب اللہ نے پیدا کیا ہے۔ وہی بیمار اور تندرست کرتا ہے۔ وہی زندگی اور موت کے فیصلے کرتا ہے تو پھر ہماری مرضی کہاں سے آگئی۔ کرونا نے یہ ثابت کردیا کہ ہمارا کچھ جسم ا±سی کا، مرضی بھی ا±سی کی۔ اس سال سعودی عرب نے باہر سے آنے والے والے عازمین کے لئے حج کی پابندی لگائی ہے۔صرف سعودی میں رہنے والے ہی حج کر سکیں گے چونکہ کرونا بیماری کےSymptoms کئی دن بعد ظاہر ہوتے ہیں، اسلئے پچاس لاکھ عاذمین حج کو چودہ دن کے لئے کرونٹین کرنا بہت مشکل کام ہے۔
امریکہ ،یورپ اور خلیجی ممالک میں کرونا کیسیز میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن پاکستان میں کرونا شدت اختیار کر چکاہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ سے توبہ اور استغفار کی ضروری ہے۔ اللہ رب العزت سے مدد کی ضرورت ہے۔ اللہ سے اجتماعی استغفار میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ وہ رحیم ہے کریم ہے۔وہ توبہ کرنے پر مان جاتا ہے۔ پریشانی میں ا±س کو بار بار پکارا جائے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی کام سخت تکلیف و پریشانی میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:
اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! تیری رحمت کے وسیلے سے تیری مدد چاہتا ہوں“۔ (جامع ترمذی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here