کامل احمر
1972ءسے اب تک ہم نے نو صدور کا دور دیکھا ہے جب اس ملک میں وارد ہوئے تو رچرڈ نکسن کےخلاف وائر گیٹ اسکینڈل کی تحقیق جاری تھی اور انہیں مواخذے کے نتیجے میں صدارت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ آج کے مقابلے میں ان کا جرم نہ ہونے کے برابر تھا یہ ایک تفصیل ہے قانون بدلتے ہیں سالوں پہلے پرائیویسی کا جو قانون تھا اب نہیں ہے۔ گوگل نے آپ کور ات کی تاریکی سے دن کے اُجالے تک میں ننگا کر دیا ہے پچھلے دنوں گُوگل کے سندر پچائی کی قانون دانوں کے سامنے پوچھ گچھ تھی ایک سوال کے جواب میں کہ اگر میں دس فت کے فاصلے سے مس XY کےساتھ بیٹھا ہوں تو گوگل کو معلوم ہے، بچائی نے مسکراتے ہوئے کہا جی اور یہ ہے 5G کا کمال، گوگل اور انٹرنیٹ ورک کے ذریعے سب کچھ معلوم کیا جا سکتا ہے اور یہاں کے سیاستدان خاموش ہیں کیوں؟ تعلیم یافتہ لوگ جانتے ہیں امریکہ کے اوپر کارپوریشن سوار ہو چکی ہے ہیلتھ، تعلیم، ہستپال، فوڈ، ڈرگ، خبر رسانی، گیس، بجلی، ٹرانسپورٹ، پانی، بس ایک ہوا رہ گئی ہے جس پر کارپوریشن کا بس نہیں چلتا لیکن اندیشہ ہے کہ آنے والے وقت میں وہ ہوا کو بھی سمیٹ لیں۔ اسے کہتے ہیں خوف جو ہر طرف امریکہ میں پھیل چکا ہے اور اگر د ونسلیں پہلے کے لوگ اور کارٹر تک کی صدارت کے دور کے لوگ نظام بنا کر نہ گئے ہوتے جیسے یہ نسل بگاڑ رہی ہے یا تباہ کرنے کے درپے ہے تو شاید آپ اور ہم سانس بھی نہ لے سکتے تھے اور اس ملک میں رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ باتیں ان کیلئے ہیں جو بہت سال پہلے اپنے اپنے ملکوں سے ظلم، تفریق اور نا انصافی سے تنگ آکر یہاں آئے تھے، رات دن محنت کی یہاں کے نظام سے فائدہ اٹھایا۔ قانون شکنی نہیں کی اور اب امریکہ ایک ایسے دوراہے پرکھڑا ہے کہ فیصلہ نہیں کر پا رہا، دائیں جانا ہے یا بائیں جانا ہے۔
یہ ساری باتیں پچھلے چھ مال میں وقوع پذیر ہونے کے بعد کی ہیں ،مارچ میں وائرس Covid-19 آیا اور ہسپتالوں میں لاشیں گرنے لگیں یہاں بھی کچھ ریاستوں کے گورنرز نے سیاست کھیلی، نتیجہ 32 ہزار سے زائد لوگ لقمہ¿ اجل ہو گئے تفصیل میں جائے بغیر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر نیویارک کے گورنر صاحب پُرخلوص ہوتے تو شاید 32 ہزار سے آدھے ولگ ہی اس کا شکارہوتے۔ اس سے بھی پہلے صدر ٹرمپ نے بیان دینا شروع کیئے کہ انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ وائرس آرہا ہے ہم کیا کہہ سکتے ہیں تصویر آپ کے سامنے ہے مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ ہمارے صدر جذبات میں آکر ایسی باتیں کر جاتے ہیں۔ اسی میڈیا پر Covid-19 کا سرکس جاری تھا کہ ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک پولیس والے نے ایک نہتے کالے کی گردن پر اپنا ٹخنہ نو منٹ تک رکھ کر اسے جان سے مار دیا یہ وحشیانہ عمل اس کے تین ساتھیوں نے دیکھا اور ساکت رہے۔ پورے ملک میں ہنگامے شروع ہو گئے اس کی آڑ میں کچھ شرپسندوں نے لوٹ مار کی اور جلاﺅ گھیراﺅ کیا ان کا ساتھ دینے میں کئی شہروں کی میئر بھی شامل تھے کہ انہیں اپنی سیاست چمکانہ تھی سب سے بازی لے جانے والی میئر سیاٹل شہر جو واشنگٹن ریاست میں ہے اور خود ڈیمو کریٹ ہیں نے شہر کو احتجاج کرنےو الوں کے حوالے کر دیا اور ابھی تک وہ وہاں کے چھ بلاک میں قبضہ جمائے جگہ کوCHAZ کا نام دے کر موج کر رہے ہیں میئر کا کہنا ہے کہ وہ کوئی نقصان نہیں پہنچا رہے اور یہ گرمیوں کا عشق ہے جس کے نتیجے میں اور پولیس کی عدم موجودگی میں جھڑپ کے نتیجے میں ایک کالے کی جان جا چکی ہے ۔علاقہ کی ناکہ بندی کے نتیجے میں احتجاج کرنے والوں نے پولیس کو اندر آنے نہیں دیا۔ صدر ٹرمپ بار بار یہی کہتے رہے کہ اگر گورنر یامیئر کہیں تو ایک دن میں نیشنل گارڈ بھیج کر امن قائم کیا جا سکتا ہے لیکن خاتون میئر سیاست چمکا رہی ہیں، نیویارک میں بھی لوٹ مار ہوئی تھی اور نیشنل گارڈ کو نہیں آنے دیا تھا، جتنے ڈیمو کریٹ شہر ہیں وہاں ٹرمپ کیخلاف سیاست کھیلی جا رہی ہے اور شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے۔
Black Live Smarter کی آڑ میں کچھ لوگ اپنا مقصد پورا کر رہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق احتجاج کرنےو الوں میں ANTIFA شامل ہے بلکہ ہم کہیں گے کہ سرپرستی کر رہی ہے۔ ٹرمپ صاحب نے پچھلے اتوار کو اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے (TULSA) تلسا میں ریلی سے خطاب میں نقد نقد سنا دیں ہر چند کہ ریلی میں صرف 12 ہار لوگ (99.0 فیصد) اکثریت گوروں کی تھی شامل تھے، میڈیا نے تابڑ توڑ حملے کئے CNN جو ڈیمو کریٹ کی زبان بول رہا ہے ناکام ریلی کا نام دیا لیکن FOX نے وجہ بتائی کہ دو ہفتے سے لوگوں کو کرونا سے ڈرایا جا رہا ہے اور احتجاج کرنے والوں کے ڈر سے لوگ گھروں سے باہر نہیں آئے، ان کی بات درست ہے کہ اوکلو ہاما کی آبادی 25 فیصد گوروں پر مشتمل ہے ہم اس ریلی کو ان دونوں آفتوں کے تناظر میں کامیاب کہہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ نے دو گھنٹے بول کر اپنا اندر باہر کر دیا اور بائیڈن کے مقابلے میں خود کو بہتر امیدوار بھی ثابت کر دیا جو پچھلے تین ماہ سے اپنی خاتون مشیر کے کہنے پر باہر نہیں آرہے، ہمیں بائیڈن سے ہمدردی ہے کہ وہ ٹرمپ کے مقابلے میں جاندار امیدوار نہیں۔ یہ بھی ڈیمو کریٹ اور ان کے پوشیدہ مشیروں کی کم عقلی ہے یا سازش کہ برنی سینڈرز جیسے ذہین انسان پر انہوں نے بائیڈن کو ترجیح دی ہم ابھی سے کہہ دیتے ہیںکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرانا آسان نا ہوگا۔ ٹرم اپنے ہی لوگوں کو اوقات بتانے کے ماہر ہیں، جان بولٹن جو ان کی کابینہ میں تھے اور ٹرمپ پر لکھی ان کی کتاب اس ہفتہ منظر عام پر آرہی ہے اور اس میں وائٹ ہاﺅس میں ٹرمپ کی کارکردگی پر لکھا گیا ہے کہ روکنے کی کوشش کی گئی تھی بولٹن نے ان کیلئے لکھا ہے بے خبر، بے نقاب، غیر معمولی احمقانہ اور حیران کن، ہمیں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنی تقریروں میں کہیں کہیں کامیڈی شامل کر کے اور کُھلے الفاظ استعمال کر کے حیران کر دیتے ہیں اور آخر میں کہتے چلیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بننے جا رہے ہیں۔ ہر چند کہ میڈیا ان کےخلاف بول رہا ہے خود عوام میڈیا کےخلاف ہیں۔
٭٭٭