کامل احمر
3 مارچ کی شب ایک بی گریڈ چینل NEV پر ڈرامہ ”تم میرے پاس ہو“ کے شہرت یافتہ لکھاری (پچھلا مقبول ڈرامہ ”صدقے تمہارے“) اور خود ساختہ کالمسٹ اور انسانی حقوق کی پاسبان ہیومن رائٹس ایکٹوئٹس ماروی سرمد کے درمیان نوک جھونک کے بعد گالیوں اور غلیظ زبان کا تبادلہ دیکھا تو ہمیں اپنا معاشرہ زوال پذیر ہوتا دکھائی دیا جو تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ لکھاری ممبر کی حیثیت ایک ادیب کی ہے جو ڈرامے تخلیق کرتا ہے، درست ہے کہ وہ معاشرے کی بگڑی شکل کی عکاسی کرتاہے جو حقیقت ہے، بہت پہلے 50ءکی دہائی میں مشہور ہدایتکار محبوب خان نے ایسے ہی ترقی پسند اور آزاد معاشرے کی کہانی فلم ”انداز“ میں پیش کی تھی کہ کس طرح آزاد فضاءمیں پرورش پانے والی لڑکی جو شادی شدہ ہے اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں ایک مرد کو دوست بنا لیتی ہے جس پر اس کا باپ پہلے سے ہی نصیحت کر چکا ہوتا ہے اور جب یہ کہانی اختتام کو پہنچتی ہے تو وہ اپنے فرینڈ کو گولی مار دیتی ہے جو غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے۔ دکھایا یہ گیا تھا کہ شادی شدہ عورت کے ناطے یا کنواری ہونے کے ناطے لڑکی کو سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا چاہیے اور ساتھ ہی دوسری تہذیبوں کو نہیں اپنانا چاہیے اور اس صورت میں جب کہ ابھی ہمارا معاشرہ سو فیصدی مغربی معاشرے کی طرح آزاد نہیں ہے جہاں لڑکی کے کم عمری سے ہی بوائے فرینڈ بنانا ضروری ہے ورنہ اس کے والدین ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں لڑکی یا لڑکے میں خرابی یا نفسیاتی مشکل سمجھ کر، مغربی معاشرے میں پہلے ہائی سکول میں PROM کا جشن ہوتا ہے لڑکی لڑکے کےساتھ بیاہی دلہن کی طرح لیموزین میں ہوٹل جاتی ہے ار رات گزارتی ہے اور پھر یہ سہولت بھی دی گئی ہوتی ہے کہ اگر حاملہ ہو جائے تو وہ حمل ضائع کروا سکتی ہے، یہ ایک ذاتی پسند یا ناپسند کی بات ہے کہ لڑکی ماں بننا چاہتی ہے یا نہیں بہت سی ایسی لڑکیاں جو ماں نہیں بننا چاہتی ہیں وہ حمل ضائع نہیں کروا سکتیں اس لئے کہ ان کے پاس ڈاکٹر کو فیس دینے کیلئے پیسے نہیں اور نہ ہی حکومت اس کام کیلئے پیسے دیتی ہے جس کے نتیجے میں کچھ عورتوں نے مل کر تنظیم بنائی تھی کئی سال پہلے اور انہوں نے حمل ضائع کرنے کا خرچہ حکومت سے مانگا تھا باقاعدہ تحریک بھی چلائی گئی تھی اس کے برعکس ایک ایسا بھی گروپ تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ حمل ضائع کیا جائے اور ان دو گروپوں کی لڑائی میں قتل کی واردات بھی ہوئی تھیں حالانکہ حمل گرانے کا خرچہ اس زمانے میں دو سو سے چار سو ڈالر کا تھا۔ اسی تحریک میں ایک نعرہ تھا My Body My Choice اور اس تنازعہ کے پس منظر میں امریکہ کے لکھاری رابن اسٹیوس نے اس نام سے کتاب لکھی تھی۔
پاکستان میں عورتوں کے دن، پر یہی سلوگن تنازعہ کا سبب بنا تھا، پچھلے سال بھی اس تحریک میں کافی بے ہودہ سلوگن پڑھنے کو ملے تھے اور اس دفعہ یہ تحریک کافی زور و شور سے میڈیا کی اور این جی اوز کی مدد سے چلائی گئی تھی جو ہمارے معاشرے میں نا مناسب تھی کہ اس سے کم تعلیم یافتہ عورتیں غلط فہمی کا شکار ہوتی ہیں دوسرے ہمارا معاشرہ ابھی مدر پدر آزاد نہیں۔ اور قرآن کی سورة النور میں واضح طور پر کہا گیا ہے، گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کیلئے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کیلئے ہیں
اب آپ اندازہ لگا لیں پاکستان کے اسلامی معاشرے میں اس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، یقیناً یہ سلوگن میرا جسم میری مرضی، باہر کا سلوگن ہے اور باہر کی این جی اوز اس میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں جب ہی جمعیت اہل حدیث کے مرکزی رہنما حافظ مقصود نے کہا کہ مارچ پر پابندی گلائی جائے اور معلوم کیا جائے منتظمین خواتین کو کہاں سے فنڈنگ مل رہی ہے، خیال رہے ہمارے ملک میں ایک اندازے کے مطابق باہر کے فنڈز سے چلنے والی ایسی ہی این جی اوز کی تعداد سو ہزار سے اوپر ہے۔ PCP کے مطابق 150,000 ہے، مطلب یہ ہوا کہ ہر دو ہزار انسانوں پر ایک این جی او ہے اور یہ ایک خطرناک شکل ہے جو نوجوانوں کے ذہنوں اور ملک سے اور اسلامی معاشرے کو بدلنے کیلئے کافی سے بھی زیادہ ہے۔ کیا ہمارے اسلام اور معاشرے میں عورت کا مقام اور اس کے حقوق واضح نہیں کئے ہیں تو اس کے جواب میں ہم سوشل میڈیا پر سرگرم محترمہ نسیم نازش کا کمنٹ ڈالیں گے جو انہوں نے اپنے محترم دوست کے جواب میں لکھا تھا۔
آپ صاحب علم ہیں خود ہی غور کیجئے کہ سیاست، کلچر اور مذہب کا سماج سے کیا تعلق ہے، آج عالم اسلام کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ کسی طرح مغربی کلچر اور سیکولر سیاسی تحریکوں کے تباہ کن اثرات سے مسلم ثقافت اور اسلامی اقدار کو محفوظ رکھا جائے امید ہے بات واضح ہو گئی ہوگی، انہوں نے مزید لکھا ہے، جو لوگ ان آوارگان شوق کی حمایت کر رہے ہیں وہ انہی جیسے لوگ ہیں اگر اسلام میں عورتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو یہ حقوق قرآن اور حدیث میں واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں یہ حد سے بڑھی بے راہ روی جو آزاد خواتین نے اختیار کی ہے وہ مغربی تہذیب اور فحاشی کو پاکستان میں رائج کرنا چاہتے ہیں اللہ ہماری مشرقی ثقافت اور اسلامی اقدار کو ان اخلاق باختہ اور روشن خیال عورتوں سے محفوظ رکھے۔
اب یہ عورتیں کون ہیں جو مغرب کی ہوا کھا کر مغرب کی ہوا کھا کر مغرب میں اچھی باتوں کو چھوڑ کر خرافات لے کر گئی ہیں اور معاشرے میں گند پھیلا رہی ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ عورتیں اور ان کے ہمنوا مرد، زینب جیسی قصور کی کمسن لڑکیوں کی طرح اور لڑکیوں کےساتھ مردوں کے نازیبا سلوک اور زیادتی کےخلاف تحریک چلاتے۔ لیکن این جی اوز کا مینڈیٹ یہ نہیں کہ مجرموں اور قاتلوں کو سزا ملے چاہے بچیوں کےساتھ زیادتی وباءکی ہی شکل کیوں نہ اختیار کر جائے۔ پھانسی دینا انسانی حقوق سے انحراف ہوگا ان کی نظر میں اور یہ ماروی سرمدجو کالم نویس ہیں مردوں سے منہ ماری کرنا اپنی شان سمجھتی ہیں۔ 2015ءمیں ایک پروگرام میں JUIF کے پارلیمانی ممبر حافظ حمد اللہ نے بھی انہیں ذلیل و خوار کیا تھا جو ہمیں بُرا لگا تھا ان کا نصب العین ہے کہ معاشرے سے بدلہ لیا جائے جو انہیں عزت نہیں دیتا آپ خود اندازہ لگا لیں کہ میرا جسم میری مرضی، کا نعرہ عورت کے حقوق کی آگاہی کیلئے ہے یا معاشرے کو خراب کر کے ابتری کی طرف جو اندرا گاندھی کہہ گئی تھی!
٭٭٭