مجیب ایس لودھی، نیویارک
کرونا وائرس نے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی سامنے آئی ہے۔ تیل کی قیمتیں 30فیصد تک گرنے کی وجہ سے سٹاک مارکیٹوں میں بھی شدید مندی کا رجحان رہا۔ بہت سی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ پاکستان کے بازار حصص میں سرمایہ کاروں کو ایک کھرب 84ارب روپے کا نقصان ہوا۔متحدہ عرب امارات کی سٹاک مارکیٹ میں ایک روز میں 200ارب ڈالر ڈوب گئے۔ اٹلی میں کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لیے لگ بھگ پورا ملک بند کر دیا گیا ہے جہاں تک کرونا سے ہلاکتوں کا معاملہ ہے تو چین میں یہ ہلاکتیں 3500کے لگ بھگ ہو چکی ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران میں اموات کی تعداد63،سعودی عرب میں 13اور اٹلی میں168افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستان میں نوویل کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 16تک جا پہنچی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے کرونا وائرس کے انسداد کے لیے سب سے پہلے حفاظتی قدم یہ اٹھایا کہ چین اور ایران سے ملحق سرحدوں کو بند کر دیا۔ اس فیصلے کے معاشی اور انسانی حوالے سے بعض پہلو اس لحاظ سے زیر بحث رہے ہیں کہ چین میں کئی سو طلبا اور تاجر وطن واپس نہیں آ سکتے، ایران میں ہزاروں پاکستانی زائرین ضروری سکریننگ اور علاج کے بغیر اپنے گھر نہیں آ سکتے۔ ان افراد کا وائرس زدہ ممالک میں تسلی بخش معائنہ اور علاج کے بغیر وطن واپس آنا گویا پورے ملک کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ صورت حال اس لحاظ سے اور بھی پریشان کن ہو سکتی ہے جب پاکستان میں کرونا سے نمٹنے کی سہولیات کی عدم دستیابی دکھائی دیتی ہے۔ وائرس سے متاثرہ پاکستانی شہریوں میں سے متعدد صحت یابی کے بعد گھروں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ کراچی، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے جن چند افراد کے متاثر ہونے کا شبہ ہے ، ان کو کرونا وائرس کے لیے مخصوص علاج گاہ میں رکھا جا رہا ہے۔ اب تک کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کرونا سے کافی حد تک پاک ملک ہے جو چند متاثرہ افراد سامنے آئے ہیں وہ حال ہی میں ایران، شام اور دوحہ کا سفر کر چکے ہیں۔ ایسے خوش فہم افراد کی کمی نہیں جو کرونا وائرس کے باعث تیل کی قیمتوں میں کمی کو پاکستان کے لیے سنہری موقع تصور کرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دنیا بھر میں صنعتی اور پیداواری سرگرمیاں کم ہونے کی وجہ سے اور سرحدوں پر آنے جانے پر پابندیوں نے تیل کی طلب میں کمی کی ہے۔ اس کمی کے باعث تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کے آرڈرز کم ہو رہے ہیں۔ طلب میں کمی اس درجہ زیادہ ہے کہ سعودی تیل گزشتہ بیس برسوں کے دوران نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے۔ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات چونکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پوری کرتا ہے لہٰذا تیل کے نرخوں میں کمی کا اسے فائدہ ہو سکتا ہے لیکن یہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے جس منصوبہ بندی اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے وہ تاحال کہیں نظر نہیں آ رہی۔اسی طرح پاکستان کا ایک سنگین مسئلہ گردشی قرضے ہیں۔ ان قرضوں کا حجم جو 2013ءمیں 500ارب روپے تھا اب 1900ارب روپے تک چلا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے عالمی منڈیوں میں تیل کے نرخ کم ہونے کے باعث مقامی سطح پر تیل نرخ 5روپے سے 7روپے فی لٹر کم کر دیئے تھے تا ہم فی لٹر ٹیکس کی شرح بڑھا کر عوام تک زیادہ فائدہ منتقل نہیں کیا جس پر اپوزیشن نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بین الاقوامی منڈی میں جو اتار دیکھنے میں آیا ہے، اس سے امکان پیدا ہوا ہے کہ تیل کے نرخوں میں 25فیصد کمی صارفین تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ حکومتی حلقوں میں یہ تجویز بھی گردش کر رہی ہے کہ عوام کے لیے تیل کی قیمتوں میں دس روپے تک کمی کا اعلان کیا جائے اور باقی بجٹ کو گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کر لیا جائے۔
کرونا سے نمٹنے کے لیے عالمی ادارہ صحت سے پاکستانی حکام مسلسل رابطے میں ہیں، یہ ایک چیلنجنگ صورت حال ہے جس نے پاکستان اور دنیا کے باقی ممالک کو اپنی ترجیحات از سر نو ترتیب دینے کی راہ دکھائی ہے۔ معاشی اور تجارتی قواعد اور تعلقات ہر قسم کی صورت حال سے جڑے ہوئے ہیں، بہت سے ممالک جنگوں سے منافع کماتے ہیں۔ کئی نفرت اور تعصب سے دولت حاصل کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ٹیکنالوجی میں آگے اقوام بیماریوں سے فوائد حاصل کریں مگر کرونا نے دولت مند اور غریب ریاست میں تمیز نہ کر کے راستہ دکھایا ہے کہ انسانیت کو نئی ہلاکت خیز آزمائشوں کے لیے متحد ہونا ہو گا۔
٭٭٭