سلیم صدیقی، نیویارک
جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں میڈیا کا ذکر کیا تھا کہ اخبارات یا پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی اہمیت کسی قدر بڑھ گئی ہے۔ حالات اور واقعات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کی خبریں اور تبصرے قاری کے ہاتھوں تک پہنچتے پہنچتے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ مثلاً یہ کالم میں منگل کی شام کو تحریر کر رہا ہوں آج سونے کی حیثیت یا تیل کا بھاﺅ یا سٹاک مارکیٹ کی پوزیشن رپورٹ کرتا ہوں یا کسی بھی پرنٹ میڈیا میں صورتحال واضح کی جاتی ہے لیکن جب تک پریس سے اخبار یا میگزین نکلتا ہے صورتحال میں تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں اور تحریر شدہ تجزیئے اور تبصرے بدل جاتے ہیں۔
دنیا پر تیزی سے نازل ہونےوالی نئی قدرتی آفت کرونا وائرس نے دنیا کے ہر ملک پر ہر طبقے کے ہر شخص کو بُری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چین میں یہ وائرس تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد کی جانیں لے کر اب ایران اور اٹلی میں خوف و ہراس اور دہشت کے پنجے گاڑھ رہا ہے۔
اٹلی میں پورا ملک لاک ڈاﺅن کر دیا گیا ہے یعنی کسی کو گھروں سے ایمرجنسی کے بغیر نکلنے کی اجازت نہیں، ویٹی کن میں پوپ کا صدیوں سے ہفتہ وار مذہبی خطاب اور بیت اللھم (اسرائیل مقبوضہ فلسطین) کو بھی بند کر دیا گیا ہے، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے، سعودی عرب بھی تقریباً لاک ڈاﺅن ہے تاہم اس میں کرونا وائرس کی جگہ شاہی وائرس کی دہشت کا زیادہ عمل دخل ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس کریش کر گئی ہیں، نیویارک سٹاک ایکسچینج میں بارہ سال میں پہلی مرتبہ کاروبار روکنا پڑا۔ منگل کی شام نیویارک کی ویسٹ چیپٹر کاﺅنٹی میں پورے ٹاﺅن کو جراثیم سے پاک کرنے کیلئے فوج طلب کر لی گئی ہے، قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ حالیہ تباہی نے یہ سبق سکھا دیا ہے کہ درآمدات پر انحصار نقصان دہ ہے چین پر بے پناہ انحصار کی وجہ سے امریکہ کی سپر مارکیٹس خالی ہو گئی ہیں، خصوصاً ٹشو پیپر جراثیم کش سپرے ادویات ملبوسات وغیرہ کی انڈسٹری کو دھچکا لگا ہے ،سٹاک ختم ہو چکا ہے، اس لابی کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ اب فیکٹریوں کو واپس لایا جائے اور گلوبلائزیشن کے نظریئے کو دفن کر دیا جائے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسانی تاریخ میں طاعون، انفلوئنزا، ملیریا، چیچک جیسے خطرناک امراض نے کروڑوں انسانوں کی جان لی ہے 12000 سالہ انسانی تاریخ میں چیچک کے مہلک مرض سے 300 سے 500 ملین افراد کی جان گئی تھی، ایچ آئی وی ایڈز نے 36 ملین، فلو نے 1968ءمیں ایک ملین، ایشین فلو نے 1953-1956ءمیں 20 لاکھ افراد، انفلوئنزا نے 1918ءمیں 50 ملین افراد کی جان لی، میرے والد بھی بتایا کرتے تھے کہ ہندوستان میں اسی قسم کے ایک متعدی مرض نےا ن کے والدین کی جان لے لی تھی اس میں کئی کروڑ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
1910-11 میں ملیریا کے پھیلاﺅ سے تقریباً 80 لاکھ افراد دنیا بھر سے جان ہاتھ دھو بیٹھے تھے، مشرق وسطیٰ ایشیائ، مشرقی یورپ اور روس کے علاوہ امریکہ میں بھی وسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ 1889-90 میں ایک اور انفلوئنزا نے دنیا بھر میں دس لاکھ افراد کی جان لے لی۔ اسی طرح 1852-60ءمیں ملیریا کے حملے سے دس لاکھ افراد جان سے گئے تھے ،اس وقت تو سہولیات تھیں نہ ہسپتال یا ادویات ایک خطے سے دوسرے خطے تک متعددی امراض تجارتی قافلے، بحری جہازوں کے ذریعے پھیلتا تھا۔
1346-1353ءسات سالوں میں طاعون کی بیماری نے یورپ، ایشیاءاور افریقہ میں 200 ملین لوگ اس مرض کا شکار ہوئے اسی طاعون کی موذی بیماری سے 1954ءمیں دو ڈھائی کروڑ افراد موت کا شکار ہوئے۔ غالباً یورپ کی آدھی آبادی ختم ہو گئی تھی کہا جاتا ہے کہ اوائل عیسائی کیلنڈ 165 میں بھی طاعون کی ایک شکل گالن نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی تھی۔
قارئین آج ماہرین کرونا وائرس کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اسلام اور ہمارے پیارے اللہ کے آخری نبیﷺ نے پندرہ سو سال قبل نماز کی شکل میں ہمیں عطاءکر چکے ہیں اسلام ایک ابدی پیغام ہے دنیا آج اسے سمجھ رہی ہے اللہ کرے کہ عالم انسانیت اس موذی مرض سے نجات پائے اور اسلام کے ابدی رحمت و عظمت کے پیغام کو پا لے۔
٭٭٭