“بے حیاءعورت اور بے بس مرد”

0
742
شبیر گُل

شبیر گُل

“ہنگامہ ہے کیوں برپا؟”
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں اس کے نظریات کے خلاف بات کرنا آسان۔ قرآن و سنت کے لئے بات کرنا مشکل۔
آج عورت لفظ کی توہین چند فاحشہ عورتیں کر رہی ہیں۔ ایک ہنگامہ برپا ہے۔
غیر ملکی پیسوں پر پلنے والی چند طلاق یافتہ ، اخلاق باختہ اور بے حیاءعورتوں کا گروپ ، جوہمارے نظریاتی معاشرے کوتہذیب سکھانے نکلا ہے جن کی ٹانگیں ننگی ،چھاتیاں کھلی، پیٹ ننگے اور زبانیں غلیظ ہیں۔ یہ واہیات عورتیں مردوں سے جھگڑتی، گالی گلوچ کرتی نظر آتی ہیں۔
حکمران خاموش ہیں۔ کیونکہ یہ جہاں سے مالی امداد لیتے ہیں۔ ایمانی غیرت کا سودا اور پاکستان میں بے حیائی کوفروغ دینا ،ان مالیاتی اداروں کا ایجنڈا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی ادارے ہماری معاشرت میں سرائت کرچکے ہیں۔ ہم گندگی کے ڈہی ر سے خوشبو تلاش کیوں کرتے ہیں، یہ لوگ آزادی کی بات کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ کونسی آزادی چاہئے۔ کپڑے اتارنے کی آزادی۔آورگی اور بے حیائی کو آزادی کا نام دے کر کیا ثابت کیا جارہاہے ، آزاد ہونے اور آوارگی میں بہت فرق ہے۔
جو عورتیں پہلے ہی آزاد ہیں ،بے لگام ،بے شرم اور بے حیاءہیں۔ وہ مزید کونسی آزادی چاہتی ہیں۔ ؟قومی اسمبلی میں ایک خاتون ممبر نے کہا کہ مردوں کو چار شادیوں کا حق ہے تو وہ ہمیں بھی ملنا چاہئے۔ اس پر مولانا مفتی محمود مرحوم نے کہا۔ بی بی چار شادیوں کا حکم قرآن ماننے والوں کے لئے ہے۔ آپ بیس شادیاں کریں آپکو کس نے روکا ہے۔
عورت کا عظیم مقام ہے کہ ا±س کاسجدہ بھی الگ ہے۔ عورت کے سجدہ میں نزاکت ہے۔ وہ اللہ کے آگے بہی سمٹ کر سجدہ ریز ہوتی ہے۔ عورت میں حیاءاور مرد میں غیرت نہ ہو تو یہ جانور سے بد تر ہیں۔
پاکستان میں جب بدفعلی یا ریپ پر پھانسی کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ تو یہی ننگا اور لبرل طبقہ سزاو¿ں کے خلاف احتجاج کرتا ہے۔
میری اللہ سے دعاءہے کہ جو لوگ ایسی گھٹیا عورتوں کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اللہ سے معافی مانگیں۔ وگرنہ اللہ انکو بہی ایک ماروی سرمد عطاءکرے پھر میں ان سے پوچھوں تمہاری اوقات اور عزت کیا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ان چند عورتوں کے ساتھ وہ مرد کھڑے ہیں۔ جو اپنے امی سے پوچھتے ہیں کہ امی امی، میری شکل میرے ابا سے کیوں نہیں ملتی۔قارئین جن مغربی معاشرے سے یہ ٹولہ مرعوب ہے۔ آئندہ آپکو اس تہذیب یافتہ معاشرے کی اخلاقیات ،اور جنسی بے راہروی کی تصویر پیش کرونگا۔
گزشتہ دنوں عورت مارچ کے حوالے سے سوشل میڈیا، اور ٹی وی چینلز پر بے ہودگی کی بھر مارہی ۔ عقل حیران ہے کہ جس معاشرے نے انسانیت کو تہذیب و تمدن کا سبق سکھلایا وہ معاشرہ غیر مہذب اور غیر متمدن کیوں ہے۔ قرآن میں اللہ نے جسم اور ستر ڈھانپنے کاحکم دیا ہے ،جب گوشت کو کھلا چھوڑینگے تو اسے کتے ہی نوچیں گے۔
آج عورت کا لباس پنڈلیوں سے اوپر،شلوار کا نیفا ننگا، پیٹ ننگا اور چھاتی نظر آئے گی تو کیا ا±س عورت کو آپ با حیاءکہیں گے۔؟عورت آخر اپنا جسم ننگا کر کے کس کو دکھانا چاہتی ہے۔ خاوند تو اسکا گھر میں موجود ہے۔ باہر ننگی ہو کر مردوں کے جذبات کیوں برانگیختہ کرتی ہے۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والیاں نکاح پر تھوکتی ہیں لیکن غیر مردوں سے اپنے جسم گرم کروانا معیوب نہیں سمجھتیں، انکا سلوگن ہے۔ ہم چھین کے لینگے آزادی۔ہے حق ہمارا آزادی۔
کن سے آزادی ؟ دین سے آزادی۔باپ سے آزادی۔
بھائی سے آزادی۔خاوند سے آزادی۔ حیاءسے آزادی۔
میڈیا پر بیٹھے چند گندے انڈے جو پیسوں کے لئے ایمان اور غیرت بیچ چکے ہیں۔ بے شرم لفافہ صحافی ،بکاو¿ اینکرز اور میرا جسم میری مرضی مارچ کے حمایتی ، کیا اپنی بیٹی اور بہن کو ننگا کرکے مردوں کے سامنے پیش کرینگے۔؟تو پھر بازار حسن کے دلال میں اور ان میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ ؟
My body my choice
دراصل ابارشن کو لیگلائز کروانے کا بہانہ ہے۔
کورٹ کے منع کرنے کے باوجود انکے سلوگن اور پوسٹرز بہت گھٹیا تھے۔ میرا بھائی مجھے گندی فلمیں دکھاتا تھا،میرا نانا مجھے کس کرتا تھا۔
اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں۔ گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے۔پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے۔نبی کریم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تین لوگوں پر جنت حرام ہے۔
• شرابی۔ماں باپ کا نافرمان۔اور دیوس۔
مستقل شرابی اور ماں باپ کے گستاخ کو دوزخی کہا گیا ہے اور جو اپنے گھر یا اولاد میں ب±رائی دیکھے اور خاموش رہے۔ اسکو (دلا) کہا گیا ہے۔
قیامت کے دن پانچ آدمی ایک عورت کی وجہ سے دوزخ میں جائینگے۔
ا±سکا باپ، بیٹا ،بھائی، خاوند۔ وہ باپ بھائی بیٹا اور خاوند ،جس نے گھر میں بے حیائی دیکھ کر قصدا آنکھیں بند کرلیں۔دوزخ میں جائینگے۔
مرد کو گالی دینے والا یہ گروہ خاندانی نظام کا باغی ہے۔
معروف افسانہ نویس بانو قدسیہ کہتی ہیں۔ کہ جب عورت مرتی ہے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ہے۔ اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ہے پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ہے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ہے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ہے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ہے اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ہے ۔یہ ہوس بڑھتے بڑھتے اماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ہے اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ہے اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ہے۔ اور اسی حوس کی خاطر اسی فیصد مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے موت کی نیند سو جاتے ہیں،واقعی ”مرد ہوس کا پجاری تو ہے۔ ”
لیکن اگر عورت گھر سے باہر ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ہوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال کئیے باہر نکلیں اور مرد کی حوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ہے
“سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو
ہم نے سرِبازار حسن کو نیلام ہوتے دیکھا ہے ”
بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ہے جو خراب ہوگئی ہوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو¿ گی۔ ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ہے آج ہی خرید لو۔
*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھینچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتارہی تھیں کہ رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ہے، اسے رونے نہیں دیگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here