جھوٹ ایک غیر اخلاقی عمل!!!

0
286
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

شریعت اسلام میں جہاں بھی انسان کو کسی غیر اخلاقی عمل سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے تو اس عمل میں حکم الٰہی کی تعمیل کےساتھ ساتھ انسان کا اپنا بھی کوئی نہ کوئی فائدہ مضمر ہوتا ہے اور اس عمل کی مخالفت کی صورت میں جہاں انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے وہیں پر اس دنیا میں بھی اسے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کی برائی سب پر واضح اور عیاں ہے اور اس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں اپنا مقام و اعتبار کھوبیٹھتا ہے۔ جھوٹ ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ جس کو تمام آسمانی شریعتوں میں حرام قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ ایسے لوگ جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی اس کو بُرا سمجھتے ہیں۔
تعریف: ایسی خبر دینا یا کسی کو ایسی بات بتانا جو صحیح نہ ہو جھوٹ کہلاتی ہے۔
جھوٹ بولنا، جھوٹ لکھنا، اور جھوٹے اشخاص کی باتوں پر کان دھرنا حرام ہے۔ جس طرح معاشرہ اس برائی کو ناپسند کرتا ہے اسی طرح خداوند کریم کی نظر میں بھی جھوٹے لوگوں کی کوئی عزت و منزلت نہیں ہے۔
چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے!
پس تم لوگ بتوں کو پلیدگی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد رب العزت ہے!
ترجمہ: جھوٹ تو وہی لوگ بولتے ہیں جو خدا وند کریم کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے۔
اگر ہم ائمہ معصومین علیھم السلام کے فرامین کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں جھوٹ اور جھوٹے شخص کی مذمت میں بے شمار احادیث ملتی ہیں کہ جن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معصومین علیھم السلام اس قبیح عمل سے بالکل ہی راضی نہیں ہیں جیسا کہ رسول خداﷺ سے منقول ہے کہ! سب سے بڑی خیانت یہ ہے کہ تیرا بھائی تجھ سے سچ بولے اور تو اس سے جھوٹ بولے۔
اسی طرح امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ! جھوٹ ایمان کی بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے اور امام حسن عسکریؑ سے منقول ہے کہ تمام برائیاں اگر ایک گھر میں ہوں تو اس کی چابی جھوٹ ہوگی۔ جھوٹا شخص کمزور ایمان اور خیانت کار ہوتا ہے اور امیر المومنین ؑ سے منقول ہے کہ مسلمان کو اس آدمی سے باز رہنا چاہیے جو اکثر جھوٹ بولتا ہو کیونکہ جھوٹا آدمی اعتبار کھو دیتا ہے اور اگر کبھی وہ سچ (بھی) بولے گا تو کوئی اس کا اعتبار نہیں کرے گا۔
جھوٹ کے اسباب: مختلف روایات احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنے کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ان وجوہات میں سے چند اہم درج ذیل ہیں! (جاری ہے)

1۔ انسان میں نقص کا ہونا یعنی جھوٹ وہی بولتا ہے
جس کی ذات میں نقص پایا جاتا ہو۔
2۔ بری صحبت اور برے اجتماعات میں شمولیت انسان کو جھوٹ پر آمادہ کرتی ہے۔
3۔ جھوٹ کی عاقبت و نقصان سے جاہل ہونے کی وجہ سے بھی انسان جھوٹ بولتا ہے۔
نقصانات: جہاں جھوٹے شخص کو آخرت میں عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہاں وہ اس دنیا میں بھی بہت سی مشکلات اور نقصانات کا سامنا کرے گا جن میں سے چند ایک نقصانات حسب ذیل ہیں!
1۔ دنیا میں وہ ذلیل و خوار ہوگا اور اسے ہر مقام پر ندامت اٹھانی پڑے گی۔
2۔ اس کا ایمان کمزور ہوگا۔
3۔ا س کے رزق میں کمی ہوگی۔
4۔ اس کا رعب و ہیبت ختم ہو جائےگا۔
5۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے شخص کو ہدایت کی نعمت سے محروم فرما دیتا ہے۔
6۔ جھوٹا شخص اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
7۔ جھوٹ کی وجہ سے انسان کئی دیگر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جس سے اُسے دہرے عذاب کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ ایسے مقامات جہاں جھوٹ بولنا جائز ہے۔ البتہ روایات میں چند ایسے موارد کا ذکر ملتا ہے کہ جہاں پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
1۔ جنگ میں دشمن کو غافل کرنے کیلئے!
2۔ دو مومن بھائیوں کے درمیان صلح کروانے کیلئے!
3۔ بیوی کا دل رکھنے کیلئے کسی چیز کا وعدہ کرنا اگرچہ اس چیز کی دینے کی نیت نہ ہو۔
4۔ ایسا مقام کہ جہاں جان، مال یا عزت کو خوف لاحق ہو تو اس ضرورت کے تحت جھوٹ بولنا جائز ہے۔
جھوٹی قسم: جھوٹ گناہان کبیرہ میں سے ہے مگر گناہ کے عذاب میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے مثلاً اگر ہم کسی گلی میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولیں تو اس کا عذاب کچھ اور ہوگا اور اگر ہم وہی جھوٹ مسجد میں جا کر بولیں تو اس کا عذاب اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے۔
قرآن کریم میں اس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔
بے شک وہ لوگ جو خدا سے کیے ہوئے عہد اور اپنی قسموں کو قلیل رقم کے عوض فروخت کر دیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا اور ان کی طرف نگاہ رحمت نہیں کرے گا اور انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔
روایات معصومینؑ میں بھی جھوٹی قسم کھانے اور جھوٹی گواہی دینے کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے جیسا کہ امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ! جو کوئی جانتے بوجھتے ہوئے اللہ کی جھوٹی قسم کھائے گا گویا وہ خدا سے جنگ کرے گا۔
اسی طرح ایسی گواہی دینا کہ جس کی حقیقت معلوم نہ ہو جھوٹی گواہی کہلاتی ہے اور یہ بھی گناہ کبیرہ ہے اسلام اس کی مذمت کرتا ہے۔
جھوٹ کا علاج یہ ہے کہ سب سے پہلے انسان اس گناہ کی خباثت کے بارے میں آگاہی حاصل کرے اور اس کو معمولی بات سمجھ کر اسے بے اعتنائی نہ برتے مثلاً کوئی شخص آپ کے گھر میں آپ کو ملنے آئے اور آپ گھر میں ہوتے ہوئے اس کو یہ پیغام بھجوائیں کہ آپ گھر میں نہیں ہیں تو یہ جھوٹ ہے اور اس طرح کے روز مرہ کے موارد میں جھوٹ سے بچنا چاہیے تاکہ کہیں اس طرح یہ قبیح عمل ہماری عادت نہ بن جائے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here