”بے رحم معاشرہ”

0
94
شبیر گُل

پاکستان ایک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا، جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا خون ، ہزاروں ماں ، بہنوں کی عصمتوں کی قربانی۔گھر لٹے، عزتیں لٹیں ، گاجر مولی کی طرح کٹے۔ اور پھر ایک ایسا وطن وجود میں آیا۔ جس کی بنیاد کلمہ لاالہ الااللہ تھا۔مگر اٹھہتر سال گزرنے کے بعد ہم نظریہ کی تلاش میں ہیں۔ معاش کی تلاش میں ہیں۔ امن و سکون کی تلاش میں ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ قرض کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ملک کے رکھوالے رہزن بن چکے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کا ہر سرکاری ادارہ عوام کو تنگ اور پریشان کرنے کی تنخواہ لیتا ہے۔ ہر شخص قائد بنا بیٹھا ہے۔ قائد کو تو سب سے پہلے قربانی دینا پڑتی ہے۔ مگر یہاں قائد، عوام کو مہنگائی، دہشتگردی اور ناانصافی میں جھونک کر بیرون ملک محلات بناتے ہیں۔ اور قائد کہلاتے ہیں۔ وطن عزیز آزاد ہوا تھا لوگوں کی عزت و مال کے تخفظ کے لئے۔ ایسی آزادی بے معنی ہے جہاں لوگ اپنی گھروں اور مساجد میں مخفوظ نہ ہوں۔ آزادی صرف چودہ اگست کو سبز ہلالی پرچم لہرانے کا نام نہیں۔یہ پرچم میں لوگوں کے حقوق کی پاسداری کی ضمانت ہے۔ ہر یوم آزادی پر سیاسی بٹیر ملک کے قیام کے خدوخال بیان کرتے ہیں۔ پھر اسکے نظریہ کو دفن کرتے ہیں۔ اسکا حلیہ بزگاڑتے ہیں۔ جرائم اور کرپشن کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔ میں تو ان جرنیلوں ، ججوں اور سیاسی اشرافیہ کو محب وطن تب مانوں جب جرنیلوں ججوں بیوروکریٹس اور سیاسی چوروں کی بیرون اور اندرون ملک جائدادوں کا حساب ہوگا۔ ایک طرف سیاسی درندوں اور دوسری طرف فرقہ پرست اور مذہبی درندوں نے اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے۔ بیوروکریٹس، ججز، جرنیلوں اور سیاسی گند نے حلال چھوڑ کر حرامکو ترجیح دے رکھی ہے۔ یہ لوگ اس مکھی کیطرح ہیں جو سارے جسم کو چھوڑ کر گندگی پر بیٹھتی ہے۔ اپنی سیٹیں بیچتے ہیں۔ ضمیر بیچتے ہیں ، ووٹ کی قیمت لگاتے ہیں۔ پارٹیاں بدلتے ہیں۔ لوگوں کی آرزوں،امنگوں اور خواہشات کا گلہ گھونٹتے ہیں۔ خدارا! ان ظالم درندوں کو ووٹ نہ دیں جو جو ووٹ کی امانت کو چند ٹکوں میں بیچ دیں۔ انہیں ووٹ نہ دیں جو دوسرے مسالک کا احترام نہ کرسکیں۔ جیسے مولانا خادم رضوی مرحوم ایک جلسہ میں اذان کے موقع پر کہتے ہیں کہ یہ وہابیوں کی اذان ہے یہ سور کے سور ہیں۔ جب علما کی سوچ اور ذہنیت ایسی ہوگی کہ جو اسلام کی بات دل سے نہیں فرقہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ جب منبر رسول پر غلط لوگ بیٹھے ہوں۔ تو نفرت کا بیج بویا جائے گا۔ جو لوگ عاشق رسول ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کچھ نہیں سیکھا۔اسلامی تو اقلیتوں کو تخفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن ھمارے ہاں بیشتر علما کا کردار رسول خدا کی تعلیمات کے سرسرا خلاف ہے۔ منبر رسول پر اسلامی معاشرت کی۔ اسلام کے سیاسی اور اخلاقی نظام کی بات نہیں کرتے۔ عوامی مسائل پر بات نہیں کرتے۔مملکت خداداد میں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ منبر رسول ،صحافت اور جوڈیشری اگر صحیع کام کرتے ہوں تو ملک صحیع سمت کام کرے گا۔ ملک کی اصل بربادی گزشتہ ادوار میں چند بڑے خاندانوں، درباری ملاں اور بھوکے جرنیلوں نے کی ہے۔ ملک کیسے صیح سمت اختیار کرے گا۔ کہ جب نظریاتی ووٹ پر مولانا فضل الرحمن کی دو نمبری اور ڈاکہ ہو۔ شرفا اور مذہبی ووٹ ذلیل و رسوا ہوتا ہی رہے گا۔ جیسے ن لیگ ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ووٹوں کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ جے یو آئی اس میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ گزشتہ روز جے یو آئی میں بدنام زمانہ قبضہ گروپ فرخ کھوکھر کی شمولیت سے جی یو آئی کی مذہبیت بھی کھل گئی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں قبضہ گروپس، دہشت گرد اور کریمنلز شامل ہیں۔ جیسے کراچی اور حیدرآباد ممیں ایم کیو ایم انسانی قاتلوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے ہی انہی جماعتوں کا حال ہے۔ آنر کلنگ کے نام پر دہشت و وحشت جا خاتمہ بھی ہونا چاہئے۔ مجرم چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ میرٹ پر انصاف ہونا چاہئے۔ آج ملک میں نا سیاسی کارکن نظریاتی ہے اور نا وکلا اور نہ ہی مذہبی کارکن۔ یہ دہشت و وحشت کی علامت ہیں۔ آجکل پنجاب میں سی ٹی ڈی نے ڈاکوں ، قاتلوں اور ملک دشمن سرگرمیوں میں شامل افراد پر سختی شروع کی ہے۔ جو پنجاب کی حکومت کا اچھا اقدام ہے۔ اسے سپورٹ کرنا چاہئے۔ لیکن اس میں سیاسی اور من پسند آپریشن نہیں ہونے چاہئیں۔جرائم پیشہ افراد کسی بھی جماعت سے وابستگی ہو۔ انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔ اور غیرت کے نام پر پنچایتیں کرنے والوں کو سخت سزائیں ن دی جائیں بیشک وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔سرداری نظام کو ختم ہونا چاہئے۔ آئین کو اصلی حالت میں ایمپلیمنٹ ہونا چاہئے۔ قانوں کی مکمل عملداری ہونی چاہئے۔ معاشی دہشتگردوں، مذہبی دہشتگردوں، سیاسی دہشتگردوں،صحافتی دہشتگردوں اور جوڈیشری میں بیٹھے قانونی دہشتگردوں کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہئے۔ اور جو افراد اربوں روپے کی مالی کرپشن میں ملوث ہیں انکے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔ جو ملکی دولت لیکر بھاگے ہیں انکو بھی نشان عبرت بنانا چاہئے۔جو سرکاری اداروں میں ڈان بنے بیٹھے ہیں انکے خلاف بھی قانون جو حرکت میں آنا چاہئے۔بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں دہشتگرد دندناتے گھوم رہے ہیں۔ جنکو کیفرکردار تک پہنچانا سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ پچاس سال سے سن رہے ہیں کہ ریاست مخالف عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ وہ دن کب آئے گا کہ ان عناصر کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ مسلم حکمرانوں کے رہن سہن اموی دور کے حکمرانوں جیسے ہیں۔ ان ممالک میں خصوصا پاکستان میں اموی دور کی باقیات حکمران ہیں۔ جیسے اموی دور میں اصحاب رسول اور محبین اہل بیت کی آوازوں کو طاقت کے زور پر دبایا جاتا تھا۔ ظلم اور انصافی کے زریعے حق اور سچ کو زیر کیا جاتا تھا۔ آج وہی دور ہے۔ پاکستان ہو یا سعودی عرب ہو یا خلیجی ممالک۔ کسی کو حکمران طبقہ کے خلاف زبان کھولنے کی اجازت نہیں۔ یہی حال ھمارے ہاں ہے۔ اسلام سچ بولنے کا نام ہے۔ اسلام لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے۔ اسلام پورا ناپنے اور تولنے کا نام ہے۔ اسلام وعدہ پورا کرنے کا نام ہے۔ اسلام نہ بڑی پگڑی پہننے کا نام ہے اور نا لمبی داڑھی کا نام ہے۔ اور نا ہی چالیس روزہ تبلیغ کے ساتھ سودی کاروبار کا نام ہے۔ اسلام انصاف، ایمانداری، سچ اور انسانیت کا نام ہے۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا نام ہے۔ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی ایکدوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے۔ آج امت مسلمہ پریشانیوں میں گری ہے۔ فلسطین میں گاجر مولی کیطرح کاٹے جارہے ہیں۔ بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ اسرائیل لائنوں میں لگے ،بھوک سے نڈھال ، مفلوک الحال بچوں، بوڑہوں اور عورتوں پر بمباری کررہا ہے۔ اور ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ مسلم لیڈرشپ مسلمانوں کو تیع تیغ کرنے والوں کے ساتھ سینکڑوں بلین ڈالرز کے معاہدے کررہے ہیں۔ انکے پاس فلسطینی بچوں کے لئے نا کھاناہے اور نہ ہی ہمدردی۔ گزشتہ ستر سال سے فلسطینی ظلم و بربیت سہہ رہے ہیں۔ چھوٹا سا اسرائیل باری باری مسلم ممالک کو نشانہ بنا رہے ہے۔ ہم باری باری اپنا گال پیش کررہے ہیں۔ غیرت ایمانی مفقود ہوگیا ہے۔ اب تو ہم مذمت کے قابل بھی نہیں رہے۔ ھمارے اپنے چینلز ہی پابندی لگا دیتے ہیں۔ جیسے یہودی لابی عرب ممالک میں طاقتور ہے ایسے ہی ایک مخصوص لابی پاکستان کے وجود کے خلاف کام کرہی ہے۔ پاکستان لاکہوں قربانیوں کے بعد وجود میں آیا ، دو قومی نظریہ اور اسلامی ریاست کے احیا کے لئے وجود میں آیا۔ لیکن چند سیکولر ٹی وی پر بیٹھ کر عورت کو ننگا کرنا چاہتے ہیں۔ آزادی کے نام پر اخلاقیات کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے۔ فخاشی کلچر کو پروموٹ کیا جارہا ہے۔ کیا کبھی ان سو کالڈ دانشوروں نے ان وڈیروں اور سرداروں کے خلاف آواز اٹھائی جو پسند کی شادی پر گولیوں سے بھوننے کا آرڈر جاری کرتے ہیں۔ جرگہ اور پنچائیت میں قتل کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں۔ کیا معاشرت درندگی ،حیوانیت ،وحشت اور بربرئیت کا نام ہے۔ کیا یہ انکا سیکولرازم ہے۔ کیا یہ انکی شخصی آزادی ہے۔ ظالم جابر چور ، ڈکیت حکمران ہیں۔ شریعت نے جس ہاتھ کو کاٹنے کا حکم دیا تھا آج اس ہاتھ میں خزانے کی چابی ہے۔ شریعت نے جن ظالموں کو لٹکانے کا حکم دیا تھا۔ آج وہ حکمران ہیں۔ مسلم کیا چرچہ ظالم اور طاقتوروں کی آلہ کار ہے۔ جسکی وجہ سے مسلمانوں پر ناحق مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ لیکن یاد رکھئیے! اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ نا کفن کو جیب ہوگی اور نا کفن پر بیج اور فیتے۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں جس کسی نے زرا برابر نیکی کی ہوگی وہ اسکو دیکھ لے گا اور جس کسی نے ذرا برابر بدی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ ایک ایک لمحے کا۔ ایک ایک ظلم کا ، ایک ایک ناانصافی کا۔ ہر بدمعاشی اور ظلم کا حساب دینا پڑے گا۔گزشتہ روز ایک ٹی وی اینکر نے پروگرام میں بتایا کہ حکمران جماعت کے نوجوان کو کرپٹو کرنسی میں ایک سو ملین ڈالرز کا خسارہ ہوا ہے۔ ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ انکے پاس بائیس ارب روپے کہاں سے آئے۔ آیا کوئی احتساب کا ادرہ ہے جو حرکت میں آئے۔ ؟ آپکا جواب یقینا خاموشی ہوگا۔ کیونکہ ہم لوگ گندے سسٹم، متعفن سوسائٹی اور غلیظ سیاسی خاندانوں کے چنگل میں پھسے ہیں۔ خالانکہ ملک میں دیانتدار، ایماندار ،صالح اور بے داغ قیادت جماعت اسلامی کی شکل میں موجود ہے۔ جو سیلاب ہو طوفان، جنگ ہو یا امن، مہنگائی ہویا بجلی کے بلوں کی بھرمار، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہویا کرپشن،جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جو ہر ایشو پر عوامی امنگوں پر پوار اترتی ہے۔ لیکن عوام ووٹ انہیں دیتے ہیں جن کے ہاتھوں ہم لٹ رہے ہیں۔ جنکی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں مشکل ہیں۔
قارئین! عوام کا فرض ہے کہ ووٹ ان کو دیں جو ضمیر بیچنے والے نہ ہوں لوٹ مار کرنے والے نہ ہوں۔ عوام کی عزتوں کی خفاظت کے ضامن ہوں۔ فضل الرحمن جیسے مذہبی راہزنوں،فرقہ پرست درندوں،سیاسی لٹیروں،قاتلوں ،کرپٹ اور ابن الوقت گماشتوں کو ووٹ مت دیں۔جماعت اسلامی دو قومی نظریہ کی ضامن ہے۔ اخلاقی قدروں کی مخافظ ہے۔ معاشرتی اصول کی پاسدار ہے۔ دیانت و ایمانت جس کا سنمبل ہے۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here