آج کل سوشل میڈیا، فیس بک اور ٹک ٹاک بالخصوص کچھ لوگوں کے لئے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ کچھ کے لئے اپنی بدمعاشیاں ٹک ٹاک پھیلانے کے لئے ہر کوئی میڈیا سے پیسے بنانے کی دوڑ میں ہے اور کچھ اپنی ذاتی نفرت کو لوگوں تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں، ہم نے سوچا تھا کہ ان لوگوں کو اپنی تحریر میں نہ لایا جائے لیکن اس دفعہ ضروری سمجھا کہ بات کی جائے ہم اس سلسلے میں نصیحت نہیں کرینگے نصیحتوں کا زمانہ ختم ہوا، خلوص وضعداری دوستی تاریخ کی نظر ہوئے اب تو یہ عالم کہ ہماری تیسری اور دوسری نسل اپنے بنائے راستے پر چل پڑے ہیں کہ وہ بزرگوں سے ملنا ضروری نہیں سمجھتے، لہٰذا کیا کہیں آوا کا آوا بگڑ چکا ہے۔ منشی پریم چند اردو کے اعلیٰ لکھاری تھے اور ابھی بھی ہم انہیں اردو افسانے کا رکھوالا کہتے ہیں ان کی حکایت ہے۔ ”زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو علم حاصل کرو، جاہلیت اور ڈگری پی ایچ ڈی نہیں۔ ایک بات اور کہی تھی کھانے اور سونے(ٹیلیفون پر لگے رہنے کا نام ہم نے اضافہ کیا ہے) کا نام زندگی نہیں ہے زندگی نام ہے آگے بڑھتے رہنے کی لگن کا”
کچھ دن پہلے فیس بک پر ہمایوں شبیر شیخ (PACDLI) نے ایک چونکا دینے والی پوسٹ ڈالی۔ ”قمر بشیر کو پاکولی سے نکال دیا ”ہم سمجھے یہ کوئی مذاق ہے لیکن معلومات کرنے پر تھوڑی تفصیل ملی کہ ہم نے اسے مذاق ہی جانا جیسے کوئی کھلنڈرا بچہ غصہ میں آکر اپنے ہی کھلونے پھینکنا اور توڑنا شروع کردیتا ہے جہاں تک پورا نیویارک جانتا ہے پاکولی کے بانی قمر بشیر ہیں اور انہوں نے ہی ان لوگوں کو جمع کرکے پاکولی ان کو سونپی ہے۔ اور خود نگرانی کرتے ہیں اگر کسی کو پاکولی کے تعلق سے بات کرنی ہے تو وہ قمر بشیر سے ہی بات کرے گا اور پاکولی کے تحت کوئی بھی پروگرام ہو قمر بشیر کی دعوت پر ہی آئے گا۔ آنے والا ہمایوں بشیر شیخ کو ہم تھوڑا ہی جانتے ہیں کہ وہ ہر پروگرام میں مسکراتے نظر آتے ہیں ایک دفعہ آئزن ہاور پارک میں ایک سالانہ پروگرام ہو رہا تھا اور سندیں بانٹی جارہی تھیں جن میں نیویارک کا کوئی لکھاری شامل نہیں تھا تو ہم نے ان سے کہا تھا ”ہر چند پاکولی ادبی آرگنائزیشن نہیں ہے لیکن آپ نے کسی پڑھے لکھے ادبی شخص کو کبھی کوئی سند نہیں دی یہ تو وہ بات ہوئی کہ اندھا بانٹے ریوڑیا اپنوں اپنوں کو دے” ان کاکہنا تھا آئندہ خیال رکھا جائے گا یہاں ہمیں ایک بات سمجھ میں آئی کہ وہ کچھ سیکھنا نہیں چاہتے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں ورنہ تو قمر بشیر کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔ خیال رہے ہم قمر بشیر کے قریب نہیں لیکن جانتے ہیں قمر بشیر کی خدمات پاکستانیوں کے لئے ڈھیر ساری ہیں۔یہ بھی صلاحیتوں کی بات ہے تنظیم بنانا اور اُسے چلانا یہ بھی کہتے چلیں وہ دوستی نبھانا جانتے ہیں مثال دیتے چلیں ۔قمر علی عباسی(محترم دوست) جب پہلی بار امریکہ آئے تو واپس چلے گئے اور ایک سفرنامہ لکھ ڈالا”امریکہ مت جیُو” انہیں پسند نہ آیا کہ البنی میں انکے برددار خورد ثمر عباسsetنہ تھے وہ اُن کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ لیکن دوسری بار وہsetہوگئے اس میں قمر بشیر کا ہاتھ تھا اور بلاشبہ زندگی کے آخری لمحہ تک قمر بشیر نے قمر علی عباس(مرحوم) کو آگے رکھا۔ ان کی ایک پوسٹ دیکھی ”کسی انسان کی نرمی اس کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتی کیونکہ پانی سے نرم کوئی چیز نہیں لیکن پانی کی طاقت چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے” اور شاید لوگ اس کا فائدہ اٹھا جاتے ہیں ایسا بھی ہے کہ وہ دوسروں کے کہنے میں آجاتے ہیں جو کچھ ہمایوں شبیر شیخ نے کیا وہ اس عمر میں کیا ہے جہاں مشکل ہوتا ہے کہ کونسی بات کب کہاں اور کیسے کرنی ہے۔ باتوں کو درگزر بھی کیا جاتا ہے ہوسکتا ہے اب وہ سوچتے ہوں” یہ میں نے کیا کردیا” رہا سوال قمر بشیر کے لئے کیا کہتے ہیں اس شہر کے دانشور تو ہم نقل کرینگے اُن کے خیالات۔
ظہیر احمد مہر کا کہنا تھا”یہ ہی بات اخلاق کے دائرے میں ہونی چاہیئے تھی، بزرگوں کو عزّؤ دینی چاہیئے” احتشام رضا کاظمی، نیویارک کے ادبی، سماجی اور سیاسی حلقوں میں باعزت شخصیت کے حامل ہیں ان کا کہنا تھا ”حضرت علی کا قول ہے” اس آدمی کے شر سے ڈرو جس کے ساتھ تم نے نیکی کی ہے قمر بشیر نے کمیونٹی کے لئے بہت کام کیا ہے بہترین مقرر ہیں تعلقات بنانے میں ماہر ہیں ایک معرعہ بھی داغ دیا۔
”زبان بگڑی تو بگڑی تھی خیر لیجئے ذہن بگڑا”
اچھی بات سردار نصر اللہ نے جو نیویارک میں اچھے معنوں میں جانے جاتے ہیں سلجھے انسان ہیں اور شائستہ مزاجی ان کے مزاج میں ہے نے کمنٹ دیا”کیا مطلب کہ بانی کو پاکولی سے نکال دیا یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ بشیر صاحب قمر بشیر کسی پاکولی کا محتاج نہیں ہے یہ تو ہر دل میں بستا ہے۔ جس پر ہمایوں بشیر نے آمرانہ انداز میں لکھا ”میں نے اُسے پاکولی سے باہر کردیا ہے جناب”
ایک اور صاحب ہیں جن کا دعویٰ تھا”ہمایوں نئی پرانی نسل کا مکس(MIX) نمائندہ ہے بشیر قمر کو یہ دن دیکھنے ہی تھے”
کچھ لوگوں دو کو لڑتے دیکھ کر مزہ آتا ہے اور فطرتا ”ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ملنے کو دل نہیں کرتا ان کا یہ دعویٰ کہ ہمایوں شیخ پرانی نسل کا نمائندہ ہے۔ مشاہدے کی بات نہیں کچھ لوگ ہماری اور قمر بشیر کی عمر تک پہنچنے پر ایسی باتیں کرتے ہیں لہذا کہنا بیکار ہے۔ مزید کیا لکھیں کہ دوبارہ شبہ ہوا کہ کچھ لوگوں کو لکھنا نہیں آتا بالکل اسی طرح جیسے ہم اسٹیج پر بول نہیں سکتے کے ہم لکھاری ہیں بولنے والے بہت ہیں۔ قمر بشیر کی ناساز طبیعت کے باوجود یکے بعد دیگرے تین کتابوں کا آنا ”گفتار قمر” ارض مقدس اور اب اگلے ماہ فکروفن کی طرف سے نئی کتاب ”عجائبیات قاہرہ” کا اجراء ہے آسان کام نہیں ہے بتاتے چلیں کہ شبیر شیخ نے نئی تنظیم بنالی ہے”PACUSA” گویا انہوں نے خود کو بولڈ کردیا مطلب پاکولی سے نکل گئے یہ ہوئی نا بات!!۔
٭٭٭٭٭












