سلیم صدیقی، نیویارک
آجکل امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر اور اقوام متحدہ میں سابق مندوب جان بولٹن کی کتاب کا بڑا تذکرہ ہے جو بک سٹورز پر آنے سے قبل ہی آن لائن دستیابی کے بعد موضوع عام بن چکی ہے ،جان بولٹن نے اپنی برطرفی یا بقلم خود استعفے کے بعد صدر ٹرمپ پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے تھے اور دھمکی دی تھی کہ وہ کتاب لکھیں گے جس میں ٹرمپ کی انتخابات میں بیرونی مداخلت کی درخواست بے نقاب کرینگے ،گذشتہ صدارتی انتخابات میں روسی اور آئندہ 2020نومبر کے انتخابات میں چین سے درخواست کی بھی تفصیلات شامل کی گئی ہیں۔
صدر ٹرمپ کا محکمہ انصاف اسکی اشاعت اور فروخت رکوانے عدالت گئے تاہم سپریم کورٹ نے درخواست مسترد کردی اب دیکھتے ہیں کہ قومی رازوں کے افشاں ہونے کے بعد قوم کیا فیصلہ دےگی ،وقت بتائے گا جو زیادہ دور نہیں،اب صدر ٹرمپ کی بھتیجی میری ٹرمپ نے بھی انکشاف کیا ہے کہ انکے چچا عیاش طبع ہیں اور انکی عیاشیاں اور دیگر بدعنوانیاں بے نقاب کرنے کے لئے کتاب لکھ رہی ہیں ،لگتا ہے نومبر کے الیکشنز سے قبل کئی ایسی کہانیاں سامنے آئینگی،امریکی قیادت کی خوبی ہے کہ اپنا عہد گذارنے کے بعد چاہے کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اپنا علم تجربہ اور تاریخی واقعات کو قلم بند کرتے ہیں اور امریکی عوام انہیں پڑھتی ہےبدقسمتی سے پاکستانی سیاست دان اکیڈیمک سائنسدان فوجی اور سول ایسٹبلشمنٹ کے ریٹائرڈ لوگ ان تکلفات سے کوسوں دور ہیں اگر کوئی ایک آدھ ایسی کوشش کرتا ہے تو اسکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔جنرل شاہد کی کتاب یہ خاموشی کہاں تک پر پابندی لگادی گئی ،جنرل اسد درانی نے بھارتی سابق ہم منصب کے ساتھ مل کر کتاب لکھی مگر فوج نے بعض حلقوں کے دباو¿ میں آکر انہیں بھی شٹ اپ کال دے دی یوں کئی ایسی حقیقتیں جو سامنے آنی چاہئے تھیں اب وہ انکے ساتھ قبر میں جائینگی۔میں پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ سی آئی اے کے کئی اعلیٰ افسران نے افغانستان میں دونوں جنگوں پر کئی کتابیں تحریر کی ہیں جن میں انکی کھلی مداخلت اور کاروائیوں کی تفصیل درج ہے ماشاءاللہ ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سول قیادت کی طشتریوں میں رکھی ہر قسم کی امداد کا ذکر ہے جن کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے مگر کیا مجال کہ انہیں پورا ملک انکے قدموں میں ڈالنے والوں کو کبھی شرم یا خیال آیا ہو یا ان واقعات کو کم از کم حد تک سامنے لایا جائے جنکی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہوا باقی ماندہ پر لرزہ طاری ہے ہاں البتہ جن کے ضمیر نے انہیں ملامت کیا مولانا طارق جمیل کی پراثر گفتگو کے بعد رائے ونڈ کی طرف منہ پھیر لیا اور بے گناہوں کے خون سے رنگے ہاتھوں سے مسجدوں میں جوتے سیدھے کرنے لگے۔میری بھی خواہش تھی کی قوم کے بڑے بڑے سابق جج، جرنیل، سیاستدان ،سابق صدور، وزرائے اعظم ،بیورو کریٹ سے اپنا علم وتجربہ قوم کے نونہالوں کو منتقل کروں، کسی یونیورسٹی ،کالج، ادارے کے ذریعے انکی رہنمائی فرماﺅں،ان کو چاہئے کہ اسمبلیوں میں اپنی ذہنی پستگی دکھانے کی بجائے تذلیل اور تضحیک چھوڑ کر اپنے قد میں اضافے پر توجہ دیں۔سابق چیف جسٹس مغربی پاکستان ہائی کورٹ جسٹس ایم آر کیانی(محمد رستم کیانی) کی ایک کتاب افکار پریشان میں نے کوئی چالیس سال قبل پڑھی تھی اسکے اقتباسات ابھی تک مجھے یاد ہیں وہ بہت بڑے بذلہ سنج اور مذاح نگار بھی تھے اور دبنگ جج بھی،ایک جگہ کشتی رانی (Boating )کی تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچو کشتی رانی بہت اچھا شعبہ ہے، قوم کی کشتی کبھی کبھی بھنور میں پھنس جاتی ہے جسے بھنور سے نکالنے کے لئے ماہر کشتی رانوں کی ضرورت پڑتی ہے،وہ بھی ایک جج تھے جو ایوبی مارشل لاء کے سامنے نہیں جھکے اور آج کے ججوں کا کردار بھی دیکھ کر موازنہ کر لیں کیونکہ عدالتوں پر دیگر شعبوں کی نسبت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
قاضی فائز عیسٰی کے کیس میں پوری اپوزیشن اور وکلاءبرادری نے جشن منایا، عمران خان کی ایسی تیسی کردی، رس گلے بانٹے اور کھائے گئے مگر شام کو وہی لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ٹی وی سکرینوں پر فتح کا جشن منانے والے اب ماتم کرنے پر مجبور ہیں مگر آج کی یہ زندہ حقیقت سے بھی قوم کو محروم رکھا جارہا ہے یہ آئندہ نسلوں کو کیا بتائیں گے وہی ہوگا جو ہماری اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔
٭٭٭